ایس آئی ایف سی پرقوم کا اعتماد
پاکستان،افغانستان،بشام اورسوات میں جس طرح غیریقینی صورتحال ہے اس کے ذمہ دار ہمارے دشمن عناصر ہیں، ان کے لیے ہماری پاک فوج کے جوان جس طرح اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھ کے ان علاقوںکی حفاظت کررہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان حالات میں سرحدوں کی حفاظت کے لیے ماو¿ں نے اپنے بیٹے بھجوائے ہیں تو دشمن یہ نہ سمجھے کہ ماں ایک شہادت پہ دوسرے بیٹے کا راستہ بدل دے گی، یہ جتنی بھی چالیں چل سکتے ہیں چلیں ان کی کوئی چال کامیاب نہیں ہوگی۔ چاہے ٹی ٹی پی ہویا دوسری دہشت گردی کی تنظیمیں ہوں انٹرنیشنل اور نیشنل میڈیا یہ پاکستان بتاتا رہتاہے کہ یہ کون لوگ ہیں ان کے پاس ہتھیار کون سے ہیں، ان کی تربیت کہاں اور کون کررہاہے ان کے مقاصد کیاہیں سب جانتے ہیں کہ ان تمام کارروائیوں میں بھارت فرنٹ فٹ پہ ہے افغانستان کی گورنمنٹ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ان کی مدد کررہے ہیں۔
ان تمام کارروائیوں کا مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان کو اس طرح حواس باختہ کردیاجائے کہ وہ کچھ بھی کرنے میں ناکام رہے پاکستانی فوج دو دہائیوں سے دہشت گردی کی جنگ لڑرہی ہے نہ صرف لڑرہی ہے بلکہ دہشت گردوںکو بری طرح شکست بھی دے رہے ہیں، پاکستان آج بھی سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی نہ صرف اپنا دفاع کررہی ہے بلکہ دنیا کے امن کے لیے ڈٹ کے کھڑی ہے کیونکہ ہماری فوج ان دہشت گردوں کو نہیں روکے گی تو یہ دہشت گردی کی جنگ خطے سے ہوتی ہوئی پوری دنیا میں پھیل جائے گی، اس لیے پوری دنیا کو اپنے امن کی خاطر پاکستانی فوج کو اور زیادہ موثر کارروائیاں کرنے کے لیے مدد کرنی چاہیے جس طرح جوان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں اس کی آج دنیا میں کوئی مثال نہیں، اس مشکل ترین جنگ کی انسانی زندگی میں کوئی مثال نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس بات سے ڈر کرہمارا ڈرپوک دشمن ایسے حربے استعمال کررہاہے جس سے وہ سمجھتاہے کہ پاکستانی فوج گھبرا جائے گی یا شکست تسلیم کرلے گی توہمارے دشمن کویہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے جوانوں کا سینہ قلعہ کی دیوار ہے، ایک شکایت جو ہمیں اپنوں سے ہے کہ وہ ان دشمنوں کا آلہ کار بن کر ہماری فوج کے خلاف سوشل میڈیا پہ برسرکار رہتے ہیں۔ فوج کوٹارگٹ کرتے ہیں اگر دشمن اپنی ایسی کسی چال میں کامیاب ہوا تو ان ناسمجھ لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ ان کا اپنا گھر سب سے پہلے نشانہ بنے گا۔
پاکستان کی سکیورٹی کے لیے بہت خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اس لیے ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، کوئی بھی فوج جنگ لڑرہی ہے تو اسے اپنی عوام کی محبت اور اعتماد چاہیے۔ بے شک عوام کی بھاری اکثریت فوج کے ساتھ ہے مگر جو آٹے میں نمک کے برابر ساتھ نہیں ہیں ان کو بھی فوج کا ساتھ دینا چاہیے ورنہ وہ دشمن کے ایجنڈے کو مکمل کرنے کے لیے ان کے ساتھی سمجھے جائیں گے اور غداری کی سزا موت ہوتی ہے، بہت سے سوشل میڈیا پہ ایسے بیانیے ملتے ہیںجوکہ انڈیا کی ایجنسیز دیتی ہیں اور ان کے اپنے لوگ پیچھے بیٹھ کے تالیاں بجارہے ہوتے ہیں اور کہہ رہے ہوتے ہیںکہ جو کام ہم نہیں کرسکے وہ پاکستان کی یہ گمراہ نوجوان نسل کررہی ہے۔جتنے بھی دہشت گرد گروہ ہیں یہ تمام لوگ انڈیا سے مل کر یہ کام کررہے ہیں۔دوسری طرف اگر دیکھا جائے توخصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) جہاں پہ سول اور فوجی ادارے مل بیٹھتے ہیں جہاں ہمارے معاشی چیلنجز ہیں ان سے نمٹاجاسکے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری لائی جاسکے لیکن مڈل ایسٹ کے اندر ہمارے دشمنوں کے سفارت کار متحرک ہیں اور وہ مڈل ایسٹ کے ممالک کی بجائے اس کے وہ پاکستان کی طرف لائیں وہ انڈیا کی طرف کھینچتے ہیں اور وہاں ایسا پراپیگنڈا کرتے ہیں پاکستان کے خلاف کہ ہماری جوایس آئی ایف سی وہ ان کے اہداف پورا نہ کرسکیں۔ یہ بھی ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح سی پیک گیم چینجرہے اسی طرح سے ہیایس آئی ایف سی بھی گیم چینجر ہے یہ گورنمنٹ کا بہت اہم قدم ہے اس میں واضح ہے کہ فوج اور سول گورنمنٹ پاکستان کو مل کر اقتصادی ترقی کی طرف لے جانا چاہتے ہیںمگر بدقسمتی سے یہاں فوج کی انوالومنٹ کونشانہ بناتے ہیں خاص طور پہ کچھ انڈین اس کو نشانہ بناتے ہیں لیکن ہمیں سمجھنا ہوگاکہ پاکستان کی ترقی کے لیے فوج جو بھی کرنا چاہے کرسکتی ہے پاکستان کی فوج ایک نیشنل آرمی ہے اور نیشنل آرمی ایسا ہی کرتی ہے ایس آئی ایف سی کی اگر تفصیل میں جائیں تو ہماری زراعت کا معاملہ ہونا چاہیے۔کمیونی کیشن انفراسٹرکچر چاہے ڈائریکٹ فارن انویسٹمنٹ ہو چاہے مائنز اینڈ منرلز اگر ان تمام پالیسیز پہ عمل درآمد کامیابی سے ہوتا رہے تو بہت جلد ہم مثبت نتائج سے بہرہ مندہوں گے کیونکہ بہت سے لوگوں نے ایس آئی ایف سی کے فورم پہ اعتماد کا اظہارکیاہے وہ انویسٹمنٹ بھی کررہے ہیں مگر ابھی ہمیں اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جارحانہ سفارت کاری کرنا چاہیے اس فورم کے لیے بنیادی مقصد انویسٹمنٹ لے کے آنا ہے اس کے لیے ہمیں اطراف پہ بھی نظر دوڑانی ہے کیونکہ ہمارے گرد بیٹھا ہمارا دشمن انویسٹرز کو ہمارے اندرونی انتشار یا معاشی بحران کو لے کر بددل بدگمان کرتاہے ہمیں ان کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے دشمن کو کمزور اور بے خبر بھی نہیں سمجھنا چاہیے۔