او آئی سی اجلاس کو مو¿ثر بنانے کے تقاضے
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار 4 اور 5 مئی کو گیمبیا کے شہر بانجول میں اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (اوآئی سی) کے 15ویں سربراہی اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کرینگے۔ وہ او آئی سی کے فارن منسٹرز اجلاس میں بھی شرکت کریں گے جس میں اجلاس کے ایجنڈے کو حتمی شکل دی جائیگی۔ سربراہ اجلاس کے موقع پر اسحاق ڈار اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی غزہ میں حالیہ نسل کشی‘ بھارت کے غیرقانونی زیرقبضہ جموں و کشمیر میں بنیادی حقوق کی پامالی، مسلم امہ کے اتحاد و یکجہتی کے فقدان، اسلامو فوبیا میں اضافے اور دہشت گردی کے عالمی چیلنجوں کے بارے پاکستان کا موقف پیش کرینگے۔
او آئی سی کا یہ اجلاس ایسے وقت میں ہونے جا رہا ہے جب غزہ کے عوام مسلسل حالت جنگ میں ہیں ‘ دہشت گرد اسرائیل کے ہاتھوں بدترین ظلم و ستم کا شکار ہیں اور انکی نسل کشی کی جا رہی ہے چنانچہ مسلم ممالک کے سربراہان کیلئے یہ اہم موقع ہے کہ وہ اپنے تمام تحفظات‘ باہمی اختلافات اور مصلحتوں کا لبادہ اتار کر مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل اور اسلاموفوبیا کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کیلئے عملی طور پر نہ صرف سرگرم عمل ہوں بلکہ اقوام متحدہ میں اپنا اثرورسوخ رکھنے پر اس نمائندہ عالمی فورم پر اپنا دباﺅ ڈالیں تاکہ جارح اسرائیل کے جنونی ہاتھوں کو فی الفور روکا جا سکے اور اسکی پشت پناہی کرنیوالے ممالک کو بھی خبردار کیا جائے کہ انکی بلاجواز سرپرستی اسرائیل کے ہاتھوں کرہ ارض پر ایک بڑی تباہی لا سکتی ہے جس سے وہ خود بھی محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔ بے شک پاکستان فلسطین اور اسرائیل کے مابین جاری تنازع کے دوریاستی حل کا حامی نہیں ہے‘ اس کا شروع دن سے یہی دوٹوک موقف رہا ہے کہ فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جائے۔ مگراسرائیل اور اسکے سرپرستوں کے ہاتھوں صورتحال جس تیزی سے سنگینی کی طرف جا رہی ہے‘ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے فی الحال دو ریاستی حل قابلِ قبول ہو سکتا ہے‘ بعدازاں مذاکرات کے ذریعے اس تنازع کا پائیدار حل تلاش کرنا چاہیے۔ اس کیلئے او آئی سی اپنا موثر کردار ادا کر سکتی ہے اس لئے کل 4 مئی سے شروع ہونے والے اجلاس میں او آئی سی کو اپنا نشستند‘ گفتند‘ خوردن‘ برخاستند والا چلن چھوڑ کر مسئلہ فسلطین و کشمیر کے حل اور اسلامو فوبیا کے تدارک سمیت مسلم امہ کے تمام مسائل کے حل اور مسلم دنیا کے اتحاد و یکجہتی کیلئے ٹھوس اقدامات کا فیصلہ کرنا چاہیے کیونکہ مسلم امہ کا اتحاد ہی الحادی قوتوں کے گٹھ جوڑ کا موثر توڑ ہو سکتا ہے۔