• news

مولانا عبدالستار خان نیازی سے ،میری نیاز مندی

معزز قارئین! آج3 مئی ہے اور اِس سے قبل (2 مئی ) کو اہلِ پاکستان اور پاکستان سے باہر فرزندان و دخترانِ پاکستان اپنے اپنے انداز میں قائد اعظم محمد علی جناح کے جانباز سپاہی ”مجاہد ملّت“ تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن مولانا عبدالستار خان نیازی کا 24 واں یوم وِصال منا رہے تھے۔ عیسیٰ خیل تحصیل میانوالی کے مولانا عبدالستار خان نیازی 1938ءمیں ”پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن“ کے صدر، 1945ئ۔ 1946ءمیں اسلامیہ کالج لاہور میں اسلامیات کے پروفیسر اور 1946ءکے صوبائی انتخابات میں میانوالی (South) سے آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے ”یونیسٹ پارٹی“ کے ایک جاگیردار خالق داد خان کو شکست دے کر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ 1947ء میں مولانا صاحب ”پنجاب مسلم لیگ“ کے صدر منتخب ہوئے۔
سرگودھا میں تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی مرید احمد نے 1962ءمیں اپنے دوست، مولانا عبدالستّار خان نیازی سے میرا تعارف کرایا تھا۔ مولانا عبدالستّار خان نیازی، جب بھی میانوالی سے لاہور اور لاہور سے میانوالی تشریف لے جاتے تو قاضی مرید احمد صاحب کے گھر ہی میں قیام کرتے تھے۔ قاضی صاحب عمر میں میرے والد صاحب ” تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن“ رانا فضل محمد چوہان سے ایک سال بڑے تھے لیکن ان کے نہ صِرف مجھ سے بلکہ تقریباً ہر عمر کے صحافیوں سے دوستانہ تعلقات تھے۔ 
مَیں 1964 ءمیں، سرگودھا میں۔ ”نوائے وقت“۔ کا نامہ نگار تھا۔ مولانا عبدالستّارخان نیازی اس دور کے گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان کے بیٹے ملک مظفر خان کے مقابلے میں بی۔ ڈی۔ سسٹم کے تحت قومی اسمبلی کا انتخاب بہت ہی کم ووٹوں سے ہار کر سرگودھا تشریف لائے تو مَیں نے انہیں پریس کلب میں مدّعو کر لِیا۔ قاضی مرید احمد اور دوسرے مسلم لیگی قائدِین بھی مدعو تھے۔ اگلی صبح پولیس مجھے گرفتار کرنے کے لئے میرے گھرآ گئی۔ مَیں ہمسائے کی دیوار پھلانگ کر کچہری بازار پہنچ گیا۔ قاضی مرید احمد اور کچھ دوسرے بزرگ اور جواں سال دوست میرے ساتھ تھے۔ سپرٹنڈنٹ آف پولیس چودھری عبدالحمید باجوہ سے مِلے تو معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ اسکے بعد میری مولاناعبدالستّار خان نیازی سے عِقیدت اور دوستی مزید بڑھتی رہی۔ جولائی 1973 ءمیں، مَیں نے لاہور سے اپنا روز نامہ۔ ”سیاست“ جاری کِیا تو مولانا صاحب مبارکباد دینے کے لئے میرے دفترتشریف لائے، اس وقت میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان بھی موجود تھے۔مولانا صاحب نے ان سے بغل گِیر ہو کر کہا کہ ”آپ کا بیٹا بہت بہادر ہے!“۔ انہوں نے کہا کہ”اِس میں آپ جیسے مجاہدوں کی سرپرستی اور شفقت کا بھی بہت زیادہ دخل ہے“۔
اس کے بعد اسلام آباد اور لاہور میں مولانا صاحب سے میری بے شمار ملاقاتیں ہوئیں۔ مَیں نے ان کے کردار اور گفتار سے بہت کچھ سیِکھا۔ وہ مردانہ وجاہت کا بہترین نمونہ تھے۔ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خوب سِیرت بھی تھے۔ بہت غیّور اور اناﺅالے لیکن مغرور بالکل نہیں تھے اور نہ ہی وہ اپنے حسب و نسب اور عِلم و فضل پر ناز کرتے تھے۔ ساری زندگی علّامہ اقبال اور قائد ِ اعظم کے کارکن، عِقیدت مند اور مبلّغ رہے۔ ان کا طرّہ۔ کبھی کسی کے آگے نہیں جھکا۔ مَیں نے ان دِنوں مولانا صاحب کی عظمت بیان کرتے ہوئے یہ شعر کہا تھا کہ۔۔۔
” کجکلا ہوں کے سامنے، سَجدے
لوگ کرتے ہیں، ہم نہیں کرتے“۔
مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب بھی کسی سیاسی اور مذہبی لیڈر نے مولاناعبدالستّار نیازی کے خلاف بد زبانی / بد تحریری کی تو مَیں نے اپنے کالموں میں اسکی خوب خبر لی۔ 1993ءکے عام انتخابات میں مولانا عبدالستّار خان نیازی۔ شیر کے انتخابی نشان پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر شیر افگن سے ہار گئے تھے۔ ڈاکٹر شیر افگن صاحب نے بڑھک ماری اور قومی اخبارات میں ان کا یہ بیان شائع ہوا کہ ”میرا نام شیر افگن ہے۔ یعنی۔ ”شیر کو مارنے والا“۔ معزز قارئین! اِس پر مَیں نے لِکھاکہ ”کیا 55 سال کی عمر تک ڈاکٹر شیر افگن بغیر نام کے ہی زندگی گزارتے رہے؟ اصل شیر افگن تو۔ ”مغل بادشاہ جہانگیر کے دَور کا ایک سردار علی قلی خان تھا، جب اس نے حقیقی شیر مارا تو جہانگیر نے اسے یہ خطاب دِیا۔ اور پھر اسے مَروا کر اس کی بیوہ مہرالنسا سے شادی کرلی اور اسے ملکہ نورجہاں کا خطاب دِیا تھا“۔ مَیں نے یہ بھی لکِھا کہ”تِیر“۔ کے انتخابی نشان پر انتخاب جیت کر ڈاکٹر شیر افگن مولانا عبدالستّار خان نیازی پر تنقید کے تِیر بر سا رہے ہیں۔ اِس لئے اب ان کا نام ”تِیر افگن“ ہونا چاہیے۔ یعنی تِیر برسانے والا“۔
معزز قارئین! وزیرِ اعظم نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دَور میں مولانا عبدالستّار خان نیازی وفاقی وزیرِ مذہبی امور تھے۔ جب انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دِیا تو صحافیوں نے ان سے وجہ پوچھی تو مولاناصاحب نے انہیں ہندی زبان کا یہ شعر سنایا.... 
”بھلا ہوا، موری گاگر، ٹوٹی! 
مَیں تو پَنِیاں، بَھرن سے چھوٹی“
....O ....
یعنی۔ ”یہ اچھا ہوا کہ میری گاگر ٹوٹ گئی اور مَیں پنگھٹ سے کسی اور کے لئے پانی لانے کی خدمت سے چھوٹ گئی “۔ مولانا صاحب کو فارسی، اردو، ہندی اور پنجابی کے ہزاروں شعر یاد تھے، جِن کو وہ اپنی گفتگو اور تقاریر میں موقع محل کے لحاظ سے استعمال بھی خوب کرتے تھے۔ 30 اگست 1996 ءکو لاہور میں میری بڑی بیٹی منزّہ کی شادی ہوئی۔ مولانا عبدالستّار نیازی اور انکے چند مرید بھی شامل تھے۔ میری درخواست پر مولانا صاحب نے میری بیٹی کو دعائیں دِیں اور کہا کہ”بیٹی! تم اللہ تعالیٰ کو یاد رکّھو گی تو اللہ تعالیٰ بھی تمہیں یاد رکھیں گے“۔ معزز قارئین! کَینیڈا میں کئی سالوں سے مقیم میری یہ بیٹی بہت ہی خوشحال ہے۔ اس نے اور اسکے شوہر خلیل احمد خان نے کئی حج اور کئی عمرے کئے۔ ایک حج اور تین عمرے اپنے دو بیٹوں عبدالاحد خان، محمد فہد خان اور بیٹی صدف خان کو ساتھ لَے کرکئی بار مجھے اور میرے اہلخانہ کو۔ مولانا عبدالستّار خان نیازی کی دعائیں اورشفقتیں حاصل رہی ہیں۔ یہ ہم سب کی خوش بختی ہے۔فارسی کا ایک شعر مجھے اِس وقت یاد نہیں آرہا جِس کا مفہوم یہ تھا کہ۔”اگر گِل (مِٹّی) کو ”گل (پھول) سے، نِسبت ہو جائے تو اس کی خوش بختی میں کِسے کلام ہو سکتا ہے؟

ای پیپر-دی نیشن