مسنگ پرسنز‘ پردے کے پیچھے چھپی دہشت گردی
پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو الگ تھلک نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ پاکستان 2000ء کے اوائل سے ہی دہشت گردی کا شکار ہے اور تب سے مسلسل جنگ کی حالت میں ہے لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست ہونے کے باوجود، پاکستان میں دہشتگردی کے مقدمات میں سزا کی شرح سب سے کم ہے۔ اس مسئلے کا توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ ہمارا قانون دہشتگردی کے مشتبہ افراد کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟
پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہمیشہ بنیادی انسانی حقوق کے آئینی مینڈیٹ کی حمایت اور پاسداری کا عہد کیا ہے اور اس حوالے سے پاکستان کی سیکورٹی فورسزنے لوگوں اور معاشرے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بے شمار قربانیاں بھی دی ہیں۔ پھر بھی ان انتھک کوششوں کے باوجود پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بغیر ثبوت کے ہر لاپتہ شخص کی گمشدگی کا الزام دھر دیا جاتا ہے اور اس پراپیگنڈے کو سوشل میڈیا پر ایک سوچی سمجھی مہم کے ذریعے پھیلا کر عوام میں غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کی اہم وجوہات میں درجہ ذیل بڑے عوامل شامل ہیں۔
1. کارروائی میں ہلاک دہشت گرد ، وہ افراد جو لڑنے کے لیے بیرون ملک گئے تھے2. (افغانستان ، شام اور عراق) افغانستان یا دوسرے ممالک ہجرت ( اب بھی افغانستان کے گولانو کیمپ میں مقیم ہیں)
3.پڑوسی ممالک میں قید افراد
4. انسانی اسمگلنگ (یورپ منتقل کرنے کے لیے افراد کا بڑا حصہ پاکستان ایران کی سرحد عبور کرتا ہے)
5 رضاکارانہ گمشدگیاں (مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد/مفرور افراد/خاندانی جھگڑے/گھریلو مسائل) ذاتی دشمنی 6.نامعلوم لاشوں کا مسئلہ سابقہ فاٹا ، پاٹا اور بلوچستان میں قبائلی جھڑپیں۔
پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے کالعدم بلوچ عسکریت پسندوں کے ذریعے دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے پاکستانی شہریوں کو بھرتی کرنے میں دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مجرمانہ شمولیت اور بعد میں ان کے اہل خانہ انہیں لاپتہ افراد قرار دیتے ہیں اور طویل غیر حاضری کی وجہ سے لاپتہ ہونے کے واقعات سے عبارت کرتے ہیں ۔
یہاں لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے کیسز میں فرق کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لاپتہ افراد ملک میں کسی نہ کسی دہشتگردانہ کارروائی کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔ مزید یہ کہ ابھی کچھ عرصہ قبل گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر دہشتگردوں کی جانب سے حملہ کیا گیا اور اس حملے میں دہشتگرد کریم جان ہلاک ہوا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ دہشتگرد کریم جان لاپتہ افراد کی فہرست میں موجود تھا اور بعد میں اس کی بہن نے نعش حاصل کرنے کیلئے باقاعدہ درخواست بھی دی۔اس سے قبل بھی دہشتگرد عبدالودود ساتکزئی کی بہن 12 اگست 2021ء سے بھائی کی گمشدگی کا واویلا مچا رہی تھی جو مچھ حملے میں مارا گیا۔
لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے واقعات حقیقت پر مبنی نہیں جن کی اصل حقیقت دہشتگرد کریم جان، دہشتگرد امتیاز احمد اور دہشتگرد عبدالودود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لاپتہ افراد کیلئے نام نہاد مہم چلانے والی ماہ رنگ بلوچ نے بھی اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ ایران میں پاکستان کے میزائل حملے میں مارے جانے والے افراد کا تعلق صوبہ بلوچستان کے لاپتہ افراد سے ہے۔
لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے حکومت پاکستان کی کوششیں جاری ہیں اس ضمن میں وزارت داخلہ کے تحت 2011ء میں قائم کیے گئے لاپتہ افراد کے کمیشن کے جانشین کے طور پر کمیشن آف انکوائری (CoIoED) لاپتہ افراد کے مسئلے کو فعال طور پر حل کر رہا ہے۔ مارچ 2024ء تک ، کمیشن نے کل 10,203 مقدمات درج کیے ہیں ، جن میں سے 7,901 کو کامیابی کے ساتھ حل کیا گیا ہے۔ تاہم 2,302 معاملات ابھی تک حل نہیں ہوئے ہیں۔
پاکستان میں مبینہ طور پر ’’لاپتہ افراد‘‘کے واقعات کی نسبتا کم تعداد کے باوجود ، ملکی اور بین الاقوامی قوتوں کی طرف سے پاکستان کو ایک ایسی ریاست کے طور پر نشان زد کرنے کی جان بوجھ کر کوشش کی گئی ہے۔
دہشتگردی کی عفریت کے باعث ضروری ہے کہ عدالتیں اور پارلیمنٹ مل بیٹھ کر دہشتگردی پھیلانے والے پتا افراد کے بھیس میں ان عناصر کے حوالے سے کوئی مشترکہ قانون سازی کریں کیونکہ لاپتہ افراد کے معاملے پر پاکستان پر بین الاقوامی معیارات پر عمل کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کے معیارات کی پاسداری کے لیے پہلے مناسب قانون سازی اور ضابطہ اخلاق کو قائم کرنے کی ضرورت ہے جو سکیورٹی کی ضرورت اور عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے قومی عزم کے درمیان توازن پیدا کریں۔
مزید یہ کہ پاکستان میں عدم استحکام کو ہوا دینے کے لیے کالعدم بلوچ عسکریت پسندوں کی طرف سے دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے پاکستانی شہریوں کو پرکشش معاوضے پر بھرتی کرنے میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان میں ’’لاپتہ افراد‘‘ کے واقعات کی نسبتاً کم تعداد کے باوجود، ملکی اور غیر ملکی دشمن قوتوں کی طرف سے کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان کو ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کیا جائے جہاں ’’لاپتہ افراد‘‘ بہت زیادہ ہیں۔
لاپتہ افراد کے نام پر سیاست کرنے والے عناصر بیرونی قوتوں کی ایماء پر ملک میں بدامنی اور انتشار پھیلا رہے ہیں لیکن اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، سٹیک ہولڈرز اور اعلیٰ عدالتیں مل بیٹھ کر اس لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے ایسی قانون سازی کریں جس سے یہ مسئلہ جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور ایسے افراد جو لاپتہ افراد کی آڑ میں ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور قانون کے مطابق ان مجرموں کو سزا دلائی جائے۔(ختم شد)