معاشی استحکام و ترقی
بلاشبہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ہونا ضروری ہے۔ سیاسی استحکام صرف اور صرف منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کا متقاضی ہے۔ حال ہی میں جو الیکشن ہوئے ہیں انھوں نے نہ صرف سیاسی عدمِ استحکام میں اضافہ کیا بلکہ پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ جیتنے والے امیدوار ابھی تک فارم 45ہاتھوں میں لے کر پھر رہے ہیں مگر ان کی شنوائی کہیں بھی نہیں ہو رہی۔ معاشی استحکام کے لیے پہلے تو آئی ایم ایف کو فوری طور پر خیرآباد کہہ دیا جائے اور موجودہ حکمران جو کئی سال اس ملک پر مسلط رہے ہیں دراصل معاشی عدم استحکام کے ذمہ دار بھی یہی ہیں۔ اب آئی ایم ایف سے طویل المیعاد معاہدوں کی باتیں ہو رہی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ غریب جو سیاسی و معاشی عدم استحکام سب سے زیادہ شکار ہے اس کو مزید کئی سال تک غربت کی چکی میں پسنے کے لیے تیار رہنا ہو گا کیوں کہ جو قرضے آئی ایم ایف اور دیگر ممالک سے لیے جاتے ہیں وہ ٹیکسز کی مد میں صرف اور صرف غریب شہریوں سے بزور طاقت وصول کیے جاتے ہیں اور عیاشیاں صرف اور صرف اشرافیہ اور حکمران طبقہ کرتے ہیں۔
بیرونی دنیا سے قرضے لینے کی بجائے غیر جانبدارانہ شفاف احتساب ہو، جس جس نے اس ملک کو لوٹا ہے ان سے رقوم واپس لی جائیں۔ معاشی استحکام کے لیے قانون سب کے لیے ایک ہونا چاہیے۔ اسلام میں استثنیٰ کسی کو بھی حاصل نہیں۔ ہمارے ہاں آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ صدر اوروزیر اعظم کو استثنیٰ حاصل ہے۔ ان کے خلاف کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ کیوں؟ قانون کی نظر میں عام شہری اور صدر یا وزیراعظم کو یکساں حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ معاشی استحکام کیسے آئے گا ۔ جب پی ڈی ایم نے قانون بنا دیا ہو کہ پچاس کروڑ تک کرپشن کرنے والے کو کوئی بھی پوچھ نہیں سکتا تو سوچیے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے اراکین کی تعداد تو ہزاروں میں ہے تویہ ایک ایک اگر معمولی بھی پچاس پچاس کروڑ کی کرپشن کرے گا تو معیشت کو سنبھالاکون دے گا؟ اس قانون کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
نیب نے ’پلی بارگین‘کی جو اصطلاح وضع کر رکھی ہے کہ جو جتنا مال بھی لوٹے اس کا کچھ حصہ واپس کر دے تو بس وہ پاک صاف ہوگیا۔ یہ تو کرپشن کو خود دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ’پلی بارگین‘ کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ بلاشبہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا جانے والا ملک ہر قسم کی معدنیات سے مالا مال ہے۔ اس کو لوٹنے والوں نے پوری دنیا میں جائیدادیں بنا لی ہیں۔ ایک طرف عام شہریوں کی سرکاری ملازمت کے لیے عمر کی حد کم کر دی گئی ہے اور دوسری طرف من پسند افراد کو نوازنے کے لیے عمر کی حد کی پابندی 65سال ختم کر دی گئی ہے۔ مطلب کہ 75اور 80سال کے افراد کو بھی رکھ لیا جائے گا اور ان کو بیس لاکھ تک تنخواہ دی جائے گی۔ یہ سب کیا ہے؟ دولت کا چند ہاتھوں میں چلے جانا غریب عوام کی بربادی کا باعث ہے۔ اشرافیہ کی عیاشیوں، حکمرانوں کی لوٹ مار اور غیر قانونی ذاتی اختیارات سے دوسروں کو نوازنا اس کا سارا بوجھ عام شہریوںکو اٹھانا پڑتا ہے۔بجلی اور گیس کے بل عوام کے لیے بقول سراج الحق ’ڈیتھ وارنٹ‘ بنے ہوئے ہیں۔ روز بروزان میں اضافہ ہورہا ہے۔
دوسری طرف حکمران طبقہ اپنے اخراجات کو کم کرنا توہین سمجھتا ہے۔ صدر، وزیر اعظم، چیئرمین سینیٹ، سینیٹ کے ممبران، قومی و صوبائی اراکین، وزرائے اعلیٰ صاحبان کی تنخواہوں اور ان کو ملنے والی تاحیات مراعات پر نظرثانی کی جائے۔ غریب کو بھی جینے کا حق دیا جائے۔ غریب غربت اور افلاس کی وجہ سے آئے روز اپنے بیوی بچوں کو ذبح کر رہے ہیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی نہ ہی عدلیہ کوئی نوٹس لیتی ہے۔ چند ماہ قبل ایک سابق چیف جسٹس صرف اس لیے عدالت چلے گئے کہ دو ہزار یونٹ مجھے فری ملتے ہیں چونکہ میرے گھر سولر لگا ہے، لہٰذا مجھے دو ہزاریونٹ کے پیسے دیے جائیں تو عدالت نے معذرت کر لی کہ ایسا تو نہیں ہو گا اب دو دو ہزاریونٹ جب ججز صاحبان کو فری دیے جائیں گے تو یہ بوجھ بھی غریب عوام پر پڑتا ہے۔ ججز صاحبان ملازمت کے دوران باقاعدہ ٹھیک ٹھاک تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے ہیں تو دو ہزاریونٹ فری کیوں؟
اسی طرح واپڈا ملازمین کے گھروں میں تین تین اے سی چلتے ہیں انھیں کس خوشی میں فری دیے جاتے ہیں؟ کیا وہ تنخواہیں وصول نہیں کرتے۔ یہ سارا بوجھ بخدا غریب آدمی برداشت کرتا ہے۔ جب تک غریب خوشحال نہیں ہو گا ملک کبھی بھی ترقی نہیں کرے گا۔ غریب کی ساری کمائی بخدا ان بلوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ بچوں کومہنگی تعلیم اور صحت کے اخراجات علیحدہ ہیں۔ ہر حکمران غریبوں کے نام پر حکومت میں آتا ہے لیکن ان کے لیے نہ کوئی قانون سازی کی جاتی ہے نہ ان کو ریلیف دیا جاتا ہے۔ صرف اور صرف ان پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ جب تک قانون کی حکمرانی کا راج عملی طور پر نہیں ہو گا معاشی استحکام کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔ ایک ایک ادارے کو اور ایک ایک فرد کو قانون کے سامنے سرنڈر کرنا ہو گا پھر یہ ملک دنوں میں بلندیوں کی منازل طے کرے گا ورنہ۔۔۔