مصیبت اللہ کا عذاب یا آزمائش(۱)
اللہ تعالی اپنے بندوں سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے اور ان پر اپنی رحمتوں کی برسات کرتا ہے ۔ اللہ تعالی نے اپنے بندوںکو بے حساب نعمتوں سے نوازا ہے جن کا شما ر نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن اس کے باوجود اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان کی زندگی میں بہت ساری پریشانیاں اور مصائب بھی آتے ہیں ۔ مصیبتوں کے مقابلے میں اللہ تعالی کی نعمتیں بہت زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو ہمیشہ اسکو یاد رکھتا ہے اور وہ ایک مصیبت اللہ کی بے شمار نعمتوں پر بھاری محسوس ہونے لگ جاتی ہے ۔
ہر کسی پر مصیبت آنے کی وجہ ایک ہی نہیں ہوتی بلکہ بندوں کے اعمال مختلف ہونے کی وجہ سے مصائب آنے کی وجوہات بھی مختلف ہوتی ہیں ۔ کسی گنہگار اور فاسق فاجر پر جو مصیبت آتی ہے وہ اس پر اللہ تعالی کی طرف سے عذاب ہوتا ہے اور وہ مصیبت اس کی گرفت کی صورت ہوتی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : اور اللہ تعالی نے ایک بستی کی مثال دی ۔ جو بڑی پر امن اور مطمئن تھی ۔ اس کا رزق ہر جگہ سے بہت کھلا چلا آتا تھا۔تو اس نے اللہ تعالی کی نعمتوں سے کفر کیا ۔ تو اللہ تعالی نے اس بستی کے رہنے والوں کے اعمال کی وجہ سے انہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا ۔( سورۃ النحل )
سورۃ الاعراف میں ارشاد باری تعالی ہے : ’’اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے حق سے انکار کیا تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب ان کی گرفت کر لی ۔ ‘‘یعنی ان بستی والوں پر جو مصیبتیں نازل ہوئیں وہ ان کے اعمال کا نتیجہ تھیں ۔
بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی سورۃ الاعراف میں ارشاد فرماتا ہے :’’ اور ہم نے آل فرعون کو قحط اور پیداوارکی کمی میں مبتلا کیا تا کہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔ ان پر اللہ تعالی نے یہ مصیبت اس لیے نازل کی کہ وہ اپنی غلطیوں سے باز آ جائیں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ کر لیں ۔اس کے باوجود جب وہ اپنی عادتوں سے باز نہ آئے اور نعمت کو اپنا استحقاق سمجھتے رہے اور مصیبت کو حضرت موسی علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے رہے تو اللہ تعالی نے ان پر عذاب نازل کیا ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ’’پھر ہم نے ان پر طوفان بھیجا ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک ، خون اور کتنی ہی کھلی نشانیاں بھیجیں ۔ پھر انہوں نے نا فرمانی کی اور وہ لوگ مجرم تھے ۔