• news

’شیر میسور حضرت ٹیپو سْلطان کا یوم شہادت (1)

معزز قارئین ! 4 مئی کو پاکستان سمیت دْنیا بھر کے حْریت پسند مسلمان اکابرین، خاص طور پر دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے سلطنت ِ میسور کے آخری فرمانروا اور تحریک آزادی ہندوستان کے پہلے شہید سْلطان فتح علی خان ٹیپو شہید (ابن ِسْلطان حیدر علی) کا 225 واں یوم شہادت عزّت و احترام سے منایا تو مجھے تحریک پاکستان کے مجاہد ’’مفسرِ نظریہ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی بہت یاد آ ئے جن کی صدارت میں 4 مئی 1999ء کو ’’ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان ‘‘ لاہور میں حضرت ٹیپو سْلطان شہید کے 200 سالہ یوم شہادت کی تقریب ِ سعید کا اہتمام کِیا گیا تھا۔ مَیں اسلام آباد میں تھا، جب مجھے ’’نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری برادرِ عزیز شاہد رشید (اب مرحوم) نے خصوصی دعوت پر مدّعو کِیا تو مجھے بہت خوشی ہْوئی۔ دراصل مَیں1961ء میں جناب محمود خان محمود بنگلوری کی تصنیف ’’سلطنت خدادادِ میسور‘‘ کا مطالعہ کر چکا تھا۔ 
 تقریب کے مہمان خصوصی خانواداہ ٹیپو سْلطان شہید  کے پاک فوج کے میجر (ر ) جنابِ محمد ابراہیم بھی موجود تھے، جنہوں نے حضرت ٹیپو شہید کی شخصیت اور قومی خدمات کے بارے تقریب کے سامعین میں اپنی کتاب کا ایک ایک نسخہ بھی تقسیم کِیا تھا۔ مَیں نے وقتی طور پر کتاب کا ایک صفحہ دیکھا تو،  اْس پر لکھا تھا کہ Srirangapatna میں سلطان شہید کے مزار پر یہ شعر کْندہ ہے کہ …
’’بہر تسخیرِ جہاں شْد، فتحِ حیدر،آشکار!
لا فتح اِلاّ علی، لا سَیفَ اِلاّ ذْوالفقار!‘‘ 
یعنی ’’دْنیا کی فتح کے لئے فتحِ حیدر کا ظہور ہْوا۔ حضرت علیؓ سے بہتر کوئی مرد نہیں اور نہ ہی اْن کی تلوار ذْوالفقار سے بہتر کوئی تلوار ہے۔ ’’ذْوالفقار‘‘ اْس تلوار کا نام ہے جو پیغمبرِ اِنقلاب کو غزوہ بدر میں مالِ غنیمت میں مِلی تھی۔ پھر آنحضرت نے ذْوالفقار۔ حضرت علیؓ کو عطا کردی تھی اور اْس کا نام ’’ذوالفقار ِ علی‘‘ پڑ گیا۔ مجھے اِس لئے بھی خْوشی ہْوئی کہ ’’25 فروری 1969ء کو اللہ تعالیٰ نے مجھے فرزند ِ اوّل عطا کِیا تو میر ے والد ِ محترم ’’تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن‘‘ رانا فضل محمد چوہان کی فرمائش پر اْس کا نام ذوالفقار علی رکھا۔ پھر مَیں نے خود کو اْس وقت خوش بخت محسوس کِیا، جب مَیں نے دو بار جمہوریہ تْرکیہ کے "Topkapi Museum"میں ’’ذْالفقار علی‘‘ کی دوبار زیارت کی۔ ایک بار ستمبر 1973ء میں اپنے دو مرحومین صحافی دوستوں، انتظار حسین اور سعادت خیالی کے ساتھ اور دوسری بار ستمبر 1991ء میں صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رْکن کی حیثیت سے اْن کے ساتھ۔
’’ شیر مولا !‘‘۔
معزز قارئین! سْلطان فتح علی خان ٹیپو نے انگریزی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے فرانسیسی فوجی افسروں کی خدمات حاصل کیں اور اپنی ایک لاکھ فوج کو یورپی فوج کی طرز پر منظم کِیا۔ وہ آخر دم تک انگریزوں سے لڑتے رہے۔ اْن کا یہ مقولہ آج بھی بہادر مسلمانوں کے لئے مشعلِ راہ ہے کہ ’’شیر کی ایک دِن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ علامہ اقبال نے کہا تھا …
’’شیرِ مولا جْوید آزاد ی و مَرگ!‘‘ 
یعنی’’آزادی پسند اللہ کا شیر کسی کا غْلام رہنے کے بجائے موت قبول کرلیتا ہے‘‘ افسوس کہ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد بھی ہمارے فوجی اور جمہوری حکمرانوں نے خود کو ’’آزادی پسند اللہ کا شیر‘‘ ثابت نہیں کِیا۔ علاّمہ اقبال نے مولا علی کے بارے میں کہا تھا …
’’شیرِ حقّ، اِیں خاک را تسخِیر کرد!‘‘ 
یعنی ’’اللہ کے شیر نے اِس زمین کو تسخیر کرلِیا!‘‘۔ سْلطان ٹیپو شہید نے بہ حا لتِ مجبوری (مِلّتِ اسلامیہ کے مْفاد) میں انگریز گورنر لارڈ کار نوالس سے عارضی صلح کا معاہدہ کِیا اور اپنے دونوں بیٹوں کو بطور یرغمال اْس کے پاس بھجوا دِیا تھا۔
’’سلطنت خدادادِ میسور!‘‘
معزز قارئین! مَیں اپنے کالم میں جناب محمود خان محمود بنگلوری کی ’’سلطنت خدادادِ میسور‘‘ کا خلاصہ ہی بیان کرسکتا ہْوں ، آپ نے لکھا کہ ’’حضرت سلطان شہید مذہبی شعائر کے سختی سے پابند تھے۔ اْن کے دَور میں ماہِ رمضان کا بہت احترام ہوتا تھا۔ سْلطان شہید نے پِیروں، گدّی نشِینوں اور مجاوروں پر اپنے مْریدوں سے نذرو نیاز لینے پر پابندی لگا دی تھی اور اپنے دربار میں آنے والوں کو بھی اپنے سامنے احتراماً سر جھکانے سے منع کردِیا تھا۔ سْلطان شہید عوام کی فلاح و بہبود پر بہت توجہ دیتے تھے۔ اْنہوں نے کسانوں کا مالیہ معاف کردِیا تھا اور کاشت کے لئے سرکاری زمین ملکیت اور پٹّے کی بنیاد پر تقسیم کردِی تھی‘‘
کتاب میں یہ بھی لِکھا تھا کہ ’’ہندوستان میں تجارتی و صنعتی ترقی کے لئے پہلا قدم سْلطان ٹیپو شہید نے ہی اْٹھایا تھا اور انہوں نے فن جہاز سازی پر خاص توجہ دی تھی اور مقناطیسی پہاڑوں سے بحری جہازوں کو بچانے کے لئے اْن کے لئے لوہے کے بجائے تانبے کے پیندوں کا استعمال شروع کرا یا تھا۔ ریشم کی صنعت کو ترقی دِی۔ گنّے، گندم ، جَو اور پان کی کاشت کو فروغ دِیا۔ چِیڑ، سال، ساگوان، سپاری ،صندل اور ناریل کے درخت اْگائے۔ شہتوت کے درختوں پر ریشم کے کیڑے پالنے کا بندوبست کِیا۔ بڑے بڑے باغات لگوائے۔ سنِ ہجری کے بجائے سنِ محمدی جاری کِیا اور نیا سِکّہ بھی۔ سْلطان ٹیپو شہید اسلامی علوم کے فاضل تھے۔ اْنہیں عربی، فارسی، اردو، تامل، کنٹری، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور تھا‘‘
’’فتح اْلمجاہدین!‘‘۔ 
مئی 1999ء کی تقریب سے کچھ دِن پہلے، عزیز گرامی (موجودہ چیئرمین پیمرا) پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ (اْن دِنوں) "P.I.O" (پریس انفارمیشن آفیسر ) نے مجھے سْلطان ٹیپو شہید کی فارسی تصنیف ’’فتح اْلمجاہدین‘‘ بھی تحفے میں دِی تھی۔ مَیں نے اْس کتاب کو پڑھا لیکن افسوس کہ ’’ وہ اِدھر اْدھر ہوگئی!‘‘۔ ’’فتح اْلمجاہدین‘‘ فوجی قواعد و ضوابط سے متعلق تھی۔ معزز قارئین !۔4مئی 1999ء سے 2 مئی 2021ء تک مَیں اپنے ہر کالم میں پاکستان کے ہر آرمی چیف سے گزارش کر چکا ہْوں کہ ’’کیا ہی اچھا ہو کہ وہ کسی لائبریری سے ’’ فتح اْلمجاہدین‘‘ کو تلاش کر کے اْس سے مستفید ہو جائیں؟‘‘۔ ( جاری ہے )۔

ای پیپر-دی نیشن