آئین پاکستان اور عدلیہ میں مداخلت
آئین پاکستان متفقہ جامع اور واضح دستاویز ہے- جس میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات کا تعین بھی کیا گیا ہے- پاکستان کی افسوس ناک تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے وطن میں آئین اور قانون کے احترام کا کلچر پیدا نہیں ہو سکا-آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پاکستان میں آئین اور قانون کی طاقت کے بجائے طاقت کے قانون کی عملداری ہے- آئین کی بجائے "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" والا محاورہ کار فرما نظر آتا ہے- پاکستان کے بانیان نے آزادی کے بعد ریاست کی انتظامی بنیاد آئین اور قانون کی حکمرانی اور میرٹ کے اصولوں پر رکھی تھی- پاکستان کے پہلے چیف جسٹس میاں عبدالرشید باوقار شخصیت کے مالک تھے-جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے ان کو ڈنر میں شرکت کی دعوت دی تو جسٹس میاں عبدالرشید نے معذرت کر لی اور کہا کہ وہ چونکہ حکومت کے خلاف اپیلیں سنتے ہیں اس لیے وہ وزیراعظم کی دعوت میں شریک ہونے سے قاصر ہیں- انکے جانشین چیف جسٹس پاکستان محمد منیر بڑی رغبت سے حکمرانوں کی دعوتوں میں شریک ہو تے رہتے تھے- ان کے ہم عصر غیر مسلم جسٹس کارنیلیس بھی کسی کے دباؤ میں نہیں آتے تھے-جسٹس رستم کیانی نے بھی آمرجرنیل ایوب خان کے دباؤ اور مداخلت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا-جسٹس کے ایم اے صمدانی جنرل ضیاء الحق کی آ نکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور گردن اٹھا کر سچ کہنے کی ہمت رکھتے تھے-وزیراعظم محمد خان جونیجو نے بھی آئین اور قانون کی حکمرانی کے سلسلے میں جنرل ضیاء الحق جیسے طاقتور صدر کو زچ کر کے رکھ دیا تھا-یہ تو ماضی بعید کی باتیں ہیں ماضی قریب 2011ء میں لاہور ہائیکورٹ کے سابق جسٹس بیرسٹر طارق جاوید نے چیف جسٹس کی مداخلت کو قبول نہیں کیا تھا - جب چیف جسٹس نے کہا اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تمہیں کنفرم نہیں کروں گا تو پاک دل پاکباز بیرسٹر طارق جاوید نے کہا کہ مجھے ایسی کنفرمیشن نہیں چاہیے جو مشروط ہو- اپنے اصولی موقف پر ثابت قدم رہنے کی پاداش میں ان کو کنفرم نہ کیا گیا-سپریم کورٹ کی واحد خاتون جج محترمہ مسرت ہلالی نے درست کہا ہے کہ جج کو شکایت نہیں کرنی چاہئے اور اگر وہ دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تو اسے جج کی کرسی پر نہیں بیٹھنا چاہیے - محترم جسٹس منصور علی شاہ کا یہ کہنا درست ہے کہ عدلیہ کو تاریخی اور سنہری موقع ملا ہے کہ وہ اپنی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ضابطہ اخلاق کا آہنی اور آتشیں حصار قائم کر دے تاکہ آئندہ کسی بھی ریاستی ادارے کو عدلیہ میں مداخلت کی جرات ہی نہ ہو سکے -جو قارئین پاکستانی عدلیہ کی سچی اور کھری داستان پڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں وہ پاکستان کے نیک نام نامور بیرسٹر سینیٹرحامد خان کی مستند معتبر اور مقبول کتاب" ہسٹری آف جوڈیشری ان پاکستان" کا مطالعہ کریں - میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ انسان اگرخود پختہ کردار کا ہو اور دنیاوی آلائشوں سے پاک ہو تو کوئی اسے بلیک میل نہیں کر سکتا اور نہ ہی دباؤ میں لا سکتا ہے- آئین کے آرٹیکل 90 کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم اور ان کی کابینہ ریاست کو چلانے کے ذمہ دار ہیں اور وزیراعظم حکومت کے چیف ایگزیکٹو ہیں - وہ حلف اٹھاتے ہیں کہ آئین کا دفاع تحفظ اور پاسداری کریں گے-
وزیراعظم اور کابینہ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ ریاست کے تمام ادارے اور شعبے آئین اور قانون کی حدود کے اندر رہ کر کام کر رہے ہیں-اگر ریاست کا کوئی ادارہ یا شعبہ آئین سے انحراف کرتا نظر آئے تو اس کی براہ راست ذمہ داری وزیراعظم پر ڈالی جانی چاہیے- آئین کے آرٹیکل 175 کے مطابق عدلیہ آزاد اور با اختیار ادارہ ہے-عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ ریاست کے تمام ادارے اور شعبے آئین اور قانون مطابق چلائے جا رہے ہیں-جو جج آئین کا دفاع اور تحفظ کرنے سے قاصر رہے وہ جج کے منصب پر فائز رہنے کے قابل نہیں رہتا - آئین کے مطابق تمام صوبائی اور وفاقی ہائی کورٹس آزاد اور بااختیار ہیں اور وہ خود فیصلے کر سکتی ہیں لہذا ان کی جانب سے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر شکایت کرنا قابل فہم نہیں ہے-
یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان کی عدلیہ کے محترم جج یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کوئی اور باندھے- حالانکہ تمام محترم ججوں کو یہ آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کو نوٹس کریں اور عدالت میں بلا کر ان کی سرزنش کریں-افسوس ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ دور بھی دیکھنا تھا کہ جج فیصلے سنانے کی بجائے بیانات جاری کر رہے ہیں-جس سے عدل و انصاف کے نظام کی کمزوری اور ناتوانی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے- آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے رسال پور میں فضائیہ کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ" بطور ادارہ پاک فوج اپنی آئینی حدود کو جانتی ہے اور دوسروں سے بھی آئین کی پاسداری کو مقدم رکھنے کی توقع رکھتی ہے- پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 میں واضح طور پر آزادی اظہار رائے کی حدود متعین کی گئی ہیں۔ جو لوگ آئین میں آزادی رائے پر عائد کی گئی واضح پابندیوں کی برملا پامالی کرتے ہیں وہ دوسروں پر انگلیاں نہیں اٹھا سکتے"-پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں ریاست کے سکیورٹی اور سلامتی کے ادارے ہیں- ان کے خلاف یکطرفہ کارروائی کے بجائے ان کو موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ عدالت میں پیش ہوکر اپنا موقف بیان کر سکیں-وزیراعظم پاکستان نے حال ہی میں پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم نامزد کیا ہے جس کی پاکستان کے آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے-اس فیصلے کی قومی عوامی اور انتظامی ضرورت نہیں تھی - اس نوٹیفکیشن کے بعد اسحاق ڈار وزارت خارجہ پر پوری توجہ دینے کی بجائے مختلف اہم وفاقی وزارتوں میں مداخلت کرتے رہیں گے-اسحاق ڈار پاکستان کی متنازعہ شخصیت ہیں- پاکستان کے نیک نام قابل اعتبار سینئر صحافی محترم زاہد حسین نے اپنے ایک آرٹیکل میں تحریر کیا ہے۔ " میں نے 2017ء میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی کے بعد وزارت عظمیٰ کے جو امیدوار ان کے ساتھ ملاقات کرنے کے لیے آئے ان میں اسحاق ڈار بھی شامل تھے- اسحاق ڈار نے آرمی چیف سے پوچھا کہ وہ ان کے وزیراعظم بننے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں جنرل باجوہ نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ تو مسلم لیگ نون نے کرنا ہے اور آپ چونکہ سینیٹر ہیں اس لیے آپ وزیراعظم بننے کے اہل بھی نہیں ہیں -اسحاق ڈار نے کہا جنرل صاحب آپ سب کچھ کر سکتے ہیں" -
جب حکومت غیر مقبول فیصلے کرتی ہے تو وہ عوام کی نظروں میں کمزور ہو جاتی ہے- پاکستان کے مسائل تقریریں کرنے اور بیانات جاری کرنے سے حل نہیں ہوں گے-پاکستان کے تمام مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ریاست کے تمام ادارے شعبے اور عوام پاکستان کے آئین اور قانون پر صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ عمل کریں اور آئین کو مقدس دستاویز کا درجہ دیں- سینئر وکلاء کی رائے ہے کہ چیف جسٹس پاکستان محترم قاضی فائز عیسیٰ کو ججز کی شکایات کے سلسلے میں فل کورٹ تشکیل دینا چاہیے تاکہ سپریم کورٹ عدلیہ میں مداخلت کو ختم کرنے کے لیے جو بھی فیصلہ کرے وہ متفقہ اور وزنی ہو- مقننہ کو بھی عدلیہ کی آزادی کے سلسلے میں تعاون کرنا چاہیے اور ایسی قانون سازی سے گریز نہیں کرنا چاہیے جو عدلیہ کی آزادی کے لیے ضروری ہو-
٭…٭…٭