اتوار‘ 26 شوال المکرم 1445ھ ‘ 5 مئی 2024ء
سابق وزیراعظم کاکڑ اور حنیف عباسی میں گندم سکینڈل پر تلخ کلامی۔
نگران حکومت کی گندم کی بلاضرورت اور ضرورت سے زیادہ درآمد کرنے پر ’’لاہ پاہ‘‘ ہو رہی تھی۔ کوئی کسی سیکرٹری کو کوئی وزیر خزانہ کو کوئی کسی دوسرے وزیر کو موردِالزام ٹھہرا رہا تھا۔ اس دوران سابق نگران وزیر اعظم انوارالحق نے اڑتے ہوئے تیر کے آگے اپنا ہاتھ کر دیا۔ اس کے بعد توپوں کا رخ ان کی طرف ہو گیا۔ اب وہ کسی سے تلخ کلامی سے پیش آ رہے ہیں کسی سے لڑ رہے ہیں کسی سے جھگڑ رہے ہیں۔ کل انکی لیگی لیڈر حنیف عباسی سے تو تو میں میں ہوگئی۔دونوں کسی تیسرے کی پارٹی میں ہوٹل گئے تھے۔آمنا سامنا ہوا تو انوارالحق کاکڑ نے حنیف عباسی سے کہا کہ گندم معاملے پر آپ نے ہم پر انگلی اٹھائی ہے کیا گرفتار کرنے آئے ہیں؟ جس پر حنیف عباسی نے کہا کہ میں قسم کھاتا ہوں آپ چور ہو اور گندم اسکینڈل میں پیسے کھائے ہیں۔ لوگ اپنی صفائی میں تو قسمیں کھاتے ہیں عباسی صاحب چوری کا الزام لگاتے ہوئے قسم کھا رہے ہیں۔انہوں نے گل مکا دی اب پھڑ لئو،حکومت آپ کی ہے۔ جواب میں انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ فارم 47 پر بات کی تو آپ اور ن لیگ کو منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی۔ یہ کاکڑ صاحب نے اب کے مار والی بات کی حالانکہ فارم 47 بھی انہی کے عہدِ اقتدار کی پیداوار ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں تین سال تک گندم کے خراب نہ ہونے کی دلیلِ پْر تاثیر دی تھی۔ 46 لاکھ میٹرک ٹن گندم گوداموں میں موجود تھی مزید منگوا لی گئی۔ تیس لاکھ ٹن کی درآمدات کی بات ہو رہی ہے۔ وہ درآمدات کا اعتراف ہی نہیں کرتے بلکہ اس کا دفاع بھی کرتے ہیں۔گھروں میں چند ماہ میں گندم میں سْسری پڑ جاتی ہے۔ آٹا دو ماہ میں نمدار ہو جاتا ہے۔ تین سال کی ضرورت کی گندم منگوائی، اپنے کسانوں کی لاکھوں لاکھوں ٹن گندم کیا ’’بھڑولوں‘‘ میں سنبھالیں گے؟؟۔ 39 سو روپے فی من خریداری کا اعلان کر کے حکومت ’’نٹھ‘‘ گئی۔ کسان باردانے کا انتظار بھی نہیں کر رہے۔ دھوتیوں،سرہانے کے غلافوں بیڈ شیٹوں، صافوں، چادروں اور دوپٹوں میں گندم کی پنڈیں باندھ کر حکومتی بیو پاریوں کے منتظر ہیں۔ وزیر اعظم صاحب نے کسانوں سے فوری خریداری کا حکم دیا، حکم صادر فرما کر سعودی عرب چلے گئے۔ کسان سمجھتے ہیں وہ ’’لْکن میٹی‘‘ یعنی چْھپن چھپائی کھیل رہے ہیں۔
٭…٭…٭
برطرف نہیں کیا گیا میرے بھائی نے خود استعفیٰ دیا،شیر افضل مروت۔
میڈیا میں یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ شیر افضل کے بھائی خالد لطیف مروت کو برطرف کر دیا گیا۔ شیر افضل مروت کے بھائی خالد لطیف وزیراعلیٰ خیبر پی کیکے معاون خصوصی تھے۔ چیف سیکریٹری کے پی کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق خالد لطیف کو معاون خصوصی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے منصب سے ہٹا دیا گیا۔اس خبر کو میڈیا میں اپنے اپنے پیرائے میں بیان کیا گیا۔کسی نے برطرفی کی بات بھی کردی۔نوٹیفکیشن بہر حال ان کو ہٹائے جانے کا ہے جبکہ شیر افضل مروت کہتے ہیں کہ انہوں نے خود استعفیٰ دیا ہے۔ترجمان کے پی حکومت بیرسٹر سیف نے اپنے بیان میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ میں ردوبدل معمول کا حصہ ہے اور یہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا صوابدیدی اختیار ہے۔ہر ایک کی بات کو درست مان لیا جائے۔ سوال تو یہ ہے کہ خالد لطیف مروت نے استعفیٰ کیوں دیا؟ ان کو حکومت میں کیا خامی نظر آئی ان پر کوئی دباؤ تھا ان کو بلیک میل کیا جا رہا تھا؟۔ دوسری طرف جب یہ کہا جا رہا ہے کہ ان سے استعفیٰ لیا گیا ہے تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ان کی کارکردگی بہتر نہیں تھی یا انہوں نے لمباہاتھ مارنے کی کوشش کی اور وہ ہاتھ پکڑا گیا۔شیر افضل مروت اور علی امین گنڈاپور کو مخالفین کے لیے برہنہ برہان تصور کیا جاتا ہے۔ اب وہ بھی ایک دوسرے کے سامنے آگئے ہیں تو پھر اللہ خیر کرے۔دوسری جنگ عظیم کے موقع پر بر صغیر سے بھی بھرتیاں ہو رہی تھی ایک نوجوان کے ابا جی نے اپنے بیٹے کی بھرتی پر کہا: اللہ خیر کرے! کسی نے ان سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ؟تو بزرگ نے کہا سنا ہے ہٹلر بڑا اکھڑ ہے اور میرا بیٹا بھی بڑا کبہ اور ہتھ چھٹ ہے دونوں آمنے سامنے ہوں گے تو اللہ خیر کرے۔
٭…٭…٭
قیدیوں کو بخشی خانے میں دوپہر کا کھانا فراہم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری
قیدی تو قیدی ہوتا ہے۔ وہ جیل میں ہو، حوالات میں یا بخشی خانے میں چند گھنٹے کے لئے لایا گیا ہو۔ ہوائی جہاز گرین ٹرین میں جو وقت آ جائے، سوائے بْرے وقت کے اس وقت کے لحاظ سے کھانا دیا جاتا ہے۔ مطلب صبح ناشتہ دوپہر لنچ اور رات کو ڈنر۔قیدی جہاں کہیں ہو اسے وہیں جیل جیسا کھانا دیا جاتا ہے۔ سوائے پروڈکشن آرڈرز پر سینٹ اور اسمبلیوں کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کے، ان کے تو ’’لوشے‘‘ ہو جاتے ہیں۔ بخشی خانے میں دو دن چکن باقی دن دال ملا کرے گی۔ بخشی خانے میں قیدیوں کے لواحقین ان کے لئے من پسند خوراک اور دیگر ضروریات لے کے آتے ہیں خواہ ان کو ادھار اٹھانا پڑتا ہو۔ اب قیدیوں کو سرکار کی طرف سے دوپہر کی روٹی ملے گی۔ ان کے حلوہ مانڈا پر، جس پر پہلے بھی ساتھ آئے اہلکار نظر رکھتے اور مقدور بھر اپنا حصہ نکال لیتے تھے اب مکمل ہاتھ صاف کیا کریں گے۔ قیدی خصوصی مراعات کا مطالبہ تو نہیں کر سکتے مگر مساوات کی بات ضرور کر سکتے تھے۔ ان کو ہفتے میں دو دن مرغی کا گوشت ملنا ہے۔ جیل میں سب قیدیوں کو ایک جیسی روٹی دال ترکاری ملتی ہے۔ خان صاحب کو پہلوانی کے سامان سمیت دیگر مراعات دی گئی ہیں۔ ان کو دیسی مرغی دیسی گھی میں تَل کر دی جاتی ہے۔ قیدی اگر اپنے لئے دیسی لنچ کا مطالبہ کریں تو بے جا نہ ہو گا۔ جیلوں میں کہا جاتا ہے گنجائش سے کئی گنا زیادہ قیدی ہیں یعنی جیلیں اوورلوڈ ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پرانے دور میں وزیر جیل حاکمین خان نے ایک موقع پر جوش خطابت میں کہا تھا جیلوں کے جال بچھا دوں گا۔ ان کو جیلوں کا جال بچھانے دیا گیا ہوتا تو آج جیلیں اوور کرائوڈڈ نہ ہوتیں۔
٭…٭…٭
ریڈ بسوں کی نئی کھیپ پاکستان پہنچ گئی۔
ایسی 300 بسیں پہلے بھی سندھ میں چل رہی ہیں۔ مزید بھی پیپلز بس سروس منصوبے کے تحت لائی گئی ہیں۔پیپلز پارٹی کا نعرہ تو روٹی کپڑا اور مکان کا تھا۔سندھ میں لگاتار 15 سولہ سال سے پیپلز پارٹی اقتدار میں ہے۔ اس دوران پانچ سال مرکز میں بھی حکومت میں رہی۔روٹی کپڑا اور مکان کا 1970ء سے عوام کے ساتھ پیپلز پارٹی کی جانب سے وعدہ کیا جا رہا ہے مگر ٹرانسپورٹ کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ یہ وہ اضافی سہولت ہے جو پیپلز پارٹی کی طرف سے عوام کو فراہم کر دی گئی ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان تو جب ملیں گے تب ملیں گے اب تو ایسی بسوں کے جھلا رے اور ہلاریلے لیے جائیں۔پیپلز پارٹی نے جب وعدہ کر لیا ہے تو روٹی کپڑا اور مکان یقینا ایک دن ہر پاکستانی کو فراہم کر کے ہی اس پارٹی کے لیڈر دم لیں گے۔بس اب عوام تھوڑا سا انتظار کرلیں، یہی صدی ڈیڑھ صدی کا۔یہ ساری کی ساری بسیں ایئر کنڈیشنڈ ہیں ان میں کچھ الیکٹرک اور کچھ ہائیبرڈ ہیں۔ شرجیل میمن وزیر ٹرانسپورٹ سندھ اس پروجیکٹ کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ایسی بسیں اندرون شہر کے ساتھ ساتھ صوبے کی سطح پر لمبے روٹس پر بھی چلائی جاتی ہیں۔سندھ میں مسافروں کے تناسب سے بسوں کی ضرورت کی بات کی جائے تو مزید 15 ہزار کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد کہہ دیا جائے گا بس بھئی بس بہت ہو گئی۔ شرجیل میمن کی یہ بسیں شہد پر نہیں پٹرول پر چلتی ہیں ریپیئرنگ بھی ان کی ہونی ہوتی ہے اس لیے سواریوں کو کرایہ دینا پڑے گا اور اپنے سامان کی ذمہ دار وہ خود ہونگی۔بسوں سے ہزاروں خاندانوں کا روزگار وابستہ ہے۔ بسوں کی روانی ان خاندانوں کے بڑوں اوربچوں کی رگوں میں خون کی گردش کی طرح ہے۔اگر ملازمین ایسا سمجھنے لگیں تو یہ بسیں تا دیر رواں دواں رہ سکتی ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو دور میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس متعارف کروائی گئی تھی۔اس منصوبے کو یونین نے سالم ہضم کر لیا تھا۔گورنمنٹ بس سروس منصوبہ بیٹھ گیا تو کئی بڑے افسر اور چھوٹے ملازم بھیک مانگتے دیکھے گئے تھے۔جس تھالی میں کھایا اسی میں چھیدنہ کرتے تو گورنمنٹ بس سروس آج بھی رواں دواں ہوتی۔
٭…٭…٭