آئی کیوب قمر مشن اور دل جلے
ہر صاحب علم کو اکثر و بیشتر حضرت اقبال کی شاعری کی وسعت نظری پر نہال ہونے کو دل کرتا ہے جنہوں نے بر صغیر کی مسلمان نوجوان نسل کو خود ی کی پہچان کے ساتھ ساتھ بلند و بانگ خواب دیکھنے اور ان کو تعبیر دینے کی تحریک دینے کے لیے راغب کیا تحریک پاکستان سے تکمیل پاکستان اور پھر تعمیر پاکستان تک یوں ادراک ہوتا ہے کہ سپوت پاکستان تعلیمات اقبال کو پلے باندھ چکے ہیں اور حقیقی معنوں میں ستاروں پر کمند ڈالنے کے لیے عمل پیرا ہیں بالاخر پاکستانی طلبہ اور سائنس دانوں نے قیام پاکستان کے 76 سال بعد حکیم الامت کی خواہش و افکار اور خواب کو سچ کر دکھایا جو کہ کسی طرہ امتیاز سے کم نہیں تین مئی 2024ء جمعرات کے متبرک روز دو بج کر 50 منٹ پر چین کے اشتراک سے اپنا پہلا خلائی مشن آئی کیوب قمر چاند کے مدار میں روانہ کر دیا گیا۔ گو کہ یہ ایک بہت مثبت قدم ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ یاران وطن نقطہ چینی کیے بغیر رہ سکیں جہاں بیشتر پاکستانی سائنس کے اس معرکہ سے پھولے نہیں سما رہے وہاں بہت سے دل جلے اپنی بساط کے مطابق اس خلائی مہم کو تنقید کا نشانہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس مثبت یا منفی تنقید کے حق یا مخالف کے فیصلے سے قبل ہمیں پاکستانی خلائی مشن کے پس منظر اور تفصیلات کو دیکھنا ہوگا پاکستانی خلائی تحقیقاتی ادارہ سپارکو پاکستان سپیس اینڈ ایر ایٹ مو سفیر ریسرچ کمیشن کی بنیاد جنرل ایوب کے دور 1961ء میں ایک کمیٹی کی صورت میں رکھی گئی جس کو مئی 1981ء میں سابق صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے عملی جامہ پہناتے ہوئے ادارہ سپارکو SUPARCO بنایا جہاں اس ادارے کا بنیادی مقصد خلا سے متعلق سائنسی تحقیقات میں پاکستان کا کردار ادا کرنا تھا وہاں مواصلات کے نظام کے لیے قومی و بین الاقوامی سیٹلائٹ رابطوں اور نظام کو منظم اور محفوظ ہاتھوں میں رکھنا تھا یہاں دلچسپ بات یہ کہ 1983ء میں سپارکو نے پاکستانی پہلی سیٹلائٹ جس کا نام بدر اول لٹ مون تھا کی تعمیر شروع کی اور 1986ء میں پاکستان نے امریکہ سے بات چیت کی کہ وہ اس سیٹلائٹ کو لانچ کرنے میں تعاون اور مدد فراہم کرے لیکن حسب روایت امریکہ نے ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے جھنڈی دکھا دی لیکن پھر اج ہی کی طرح ہمارے ہر دل عزیز دوست چین نے ہی پاکستان کا یہ نایاب منصوبہ پایا تکمیل تک پہنچانے میں ہاتھ بڑھایا اور 1990ء میں پاکستان کی پہلی سیٹلائٹ لانچ کر دی گئی اور یہ پاکستانی خلائی تحقیقاتی ادارے کی پہلی کامیابی اور سنگ میل تھا۔
پاکستان کے اس خلائی مشن پر بے جا تنقید کرنے والوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کئی دہائیوں سے پراکسی جنگوں میں الجھائے رکھنے کے باوجود ایسی تحقیقاتی اقدامات پاکستان جیسے ملک میں ایک خوشگوار تبدیلی کی علامت سے کم نہیں ہیں۔ بعض عناصر کی یہ خصلت ہے کہ وہ بہت جلد ججمنٹ اور تقابلی جائزے پر اتر آتے ہیں جو کسی حد تک درست ہو سکتی ہے لیکن حقائق اور دلائل کے بغیر بات اپنا وزن کھو دیتی ہے۔ ہم ہمیشہ کسی بھی معاملہ میں اپنا مقابلہ اپنے پڑوسی دشمن ملک بھارت سے کرتے ہیں اور اس بار بھی بہت سے دوست لوگ جذباتی ہوتے جا رہے ہیں۔ انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ آج کی دوڑ میں ایڈوانس منٹ کسی ریاست کی بقا کے لیے انتہائی بنیادی ضرورت ہے اور اس خلائی دوڑ میں امریکی تحقیقی ادارہ ناسا کا بجٹ دنیا کے دیگر تمام ممالک سے سب سے زیادہ ہے جو کہ 25 بلین امریکی ڈالر ہے جبکہ اسکے بعد چین ہے جو کہ امریکہ سے نصف یعنی 12 بلین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارتی خلائی ادارہ انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن جو کہ عمر میں پاکستانی ادارہ سپار کو سے اٹھ سال چھوٹا ہے وہ سال کا ایک اشاریہ 66 بلین ڈالر خرچ کر رہا ہے اور ہم پاکستانی صرف.64 25 ملین ڈالر خرچ کر رہے ہیں جو کہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ جو لوگ یہ پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ چاند پر جانے کا ہمیں کیا فائدہ تو سب پاکستانیوں کو علم ہو جانا چاہیے کہ سیٹلائٹ آئی کیوب قمر جو کہ تین سے چھ ماہ تک چاند کے مدار میں چکر لگائے گی لیکن اپنا مشن صرف 53 دنوں میں مکمل کر لے گی جس کا بنیادی مقصد سائنسی تحقیق تکنیکی ترقی اور خلائی ترقی اور تحقیق سے متعلق قومی تعلیمی منصوبوں میں سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ماحول کا مطالعہ کرنا، ریموٹ سینسنگ کرنا، مواصلات کی سہولت فراہم کرنا اور فلکیات اور نئی ٹیکنالوجی کے لیے مظاہرے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ وہ لوگ جو یہ مذاق اور تنقید کر رہے ہیں کہ قرضوں میں ڈوبا اور کمزور معیشت والا ملک پاکستان دیگر ملکی و قومی مسائل حل کرنے کی بجائے چاند پر چھلانگے مارہاہے تو ان کے لیے مشورہ ہے کہ وہ پھر پتھر کے دور میں واپس چلے جائیں اور آج کے دور میں سائنسی ایجادات کو، جنہوں نے ان کی زندگی کو سہل بنا دیا ہے ترک کر دیں لیکن ایسا ممکن نہیں قومی معاشی چیلنج اپنی جگہ مگر ترقی کا پہیہ چلنا اور اس پر کام ہونا بہت ضروری ہے۔
اور چاند پر سفر کی مہم ہمیں چین نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی بلکہ اسکے پیچھے سپار کو اور پاکستانی طالب علموں کی کئی سال کی محنت نمایاں کارکردگی شامل ہے۔ جب 2022ء میں چینی نیشنل سپیس ایجنسی نے ایشیا پیسیفک سپیس کارپوریشن آرگنائزیشن (اسکو) کے ذریعے رکن ممالک کو چاند کے مدار تک مفت پہنچانے کا موقع فراہم کیا گیا تو سب ممالک نے جن میں چین ایران پاکستان بنگلہ دیش پیرو جنوبی کوریا تھائی لینڈ اور ترکیہ شامل تھے، اپنے اپنے منصوبہ جات جمع کروائے اور ان 8 ممالک میں سے صرف پاکستانی منصوبہ کو ہی قبول کیا گیا اور پھر دو سال کی محنت کے بعد سیٹلائٹ آئی کیوب قمر کو مکمل کیا جا سکا اور چاند پر روانگی سے کے لیے اسے چینی مشن چینگ 6 کے ساتھ منسلک کیا گیا جو کہ نہ صرف چاند کی سطح سے نمونے اکٹھے کریگا بلکہ اسے زمین پر بھی واپس لے کر آئیگا۔ مطلب ہم اگر چاند پر قدم جمانے جا رہے ہیں تو محض اپنی قابلیت کی بنا پر نہ کہ ایک سیاح کے طور پر۔ دوسرا یہ کہ سپارکو کے سائنس دان اس بات کو بڑے واضح طریقے سے کہہ چکے ہیں کہ ہمارے اس پروجیکٹ کا موازنہ بھارتی خلائی مشن چندریان کے ساتھ ہرگز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ منصوبہ کی نوعیت سرمایہ کاری اور قابلیت کا پیمانہ یکسر مختلف ہے۔ اگرچہ ہم چینی وسائل کو مستعار لے کر اپنی خلائی ایڈوانس منٹ پر کام کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم کامیابی کے اول زینہ پر ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب ہمارے اپنے وسائل اپنا خلائی اسٹیشن اور اپنا پیسہ ہوگا۔ تمسخر اڑانے والوں نے تو پاکستان کو جوہری توانائی حاصل کرنے پر بھی نہیں بخشا تھا کہ غریب ملک کو اس کا کیا حاصل۔ اب وہ یہ جان چکے ہیں کہ پاکستان دنیا کا ایک ناقابل تسخیر ملک بن چکا ہے اور اسی طرح انشاء اللہ خلائی مشن قمر پاکستان کو خلاؤں میں ناقابل تسخیر بنائے گا لہذا سپارکو کے سائنس دانوں طالب علموں اور حکومت کو جلن اور حسد کہ مارے لوگوں کی پرواہ کیے بغیر ترقی کے ایسے منصوبہ جات کو جاری و ساری رکھنا چاہیے کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ شاباش سپارکو شاباش طلبا و حکومت پاکستان۔