• news

تاریخ کے زخم

گزشتہ سے پیوستہ: بحوالہ میرا کالم مؤرخہ 29اپریل 2024ء ہم نے اپنے سابقہ کالم میں لیفٹیننٹ جنرل سر فرانسس ٹکر کی 1946ء سے 1947ء تک کی آنکھوں دیکھی یاداشتیں جو اُس نے اپنی کتابWhile Memory Serves میں لکھیں اپنے قارئین کے سامنے پیش کی تھیں۔یہ اس لئے ضروری ہیں کہ یہ ہماری تاریخ ہے اور جو قوم اپنی تاریخ سے لاپروائی برتتی ہے وہ اپنے جغرافیہ سے بھی محروم ہوجاتی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل سر فرانسس ٹکر تاریخ کے اِس خون آشام دور میں کمانڈر رانچی (بھارت)ہیڈکوارٹر تھاتو یوں اس علاقے کی خونی تاریخ میں وہ بذات خود ایک اہم کردار تھا۔اُس کی کمانڈ کے علاقے میں صوبہ آسام ۔ بنگال۔ اڑیسہ ۔بہار۔اترپردیش۔ دہلی اور مشرقی پنجاب شامل تھے۔اِ ن علاقوں میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہوا ناقابلِ برداشت تھا جسکا لازمی نتیجہ مسلمانوں کی شدید خواہش تحفظ تھا جو ایک علیحدہ مسلمان ملک میں ہی ممکن تھا ۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ پاکستان مسلمانوں نے نہیں ہندوؤں نے بنایا تھا۔ تاریخی واقعات اپنے قارئین کے پیشِ خدمت ہیں۔
 6 سے 15 نومبر 1946 ء کے دوران مسلمانوں پر قیامت ڈھا دی گئی۔ پوری وادی گنگا میں کلکتہ سے نواکھالی۔ پورا صوبہ بہار اور یوپی میں بہت سے مسلمانوں کا صفایا کر دیا گیا۔ صفحہ 196 پر جنرل کے اپنے الفاظ میں
''In Bihar the Hindu legions descended on the few Muslims and wiped them out, leaving about seven thousand dead''
’’بہار میں کچھ ہندو جتھے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں بالکل ختم کر دیا۔ 7 ہزار مسلمان مارے گئے‘‘ حیران کن بات یہ ہے کہ ان فسادات کی کوئی وجہ بھی تو نہ تھی۔ صرف کسی نے افواہ پھیلائی کہ فلاں فلاں علاقے میں مسلمان نو جوانوں نے ہندو لڑکیوں کی بے حرمتی کی ہے۔ مزید حیران کن بات کہ یہ خبر بالکل بے بنیاد تھی۔ خیال تھا کہ ان لوگوں کی خون بہانے کی پیاس ختم ہو گئی ہوگی لیکن انہی دنوں '' گڑھ مختیسور Garh Mukhteswar (یوپی)'' میں ایک ہندو میلہ تھا۔ اس میلے میں دہلی۔ مراد آباد اور بریلی تک کے مسلمانوں کی دوکانیں تھیں۔’’ گڑھ مختیسور ‘‘میں بذات خود بھی بہت سے مسلمان آباد تھے۔ وہاں کسی وجہ سے ایک مسلمان نے ایک جاٹ لڑکی سے کوئی بات کی۔ فوری افواہ پھیل گئی کہ مسلمانوں نے ہندو خواتین کی ہتک کی ہے۔ جو نہی یہ افواہ پھیلی روہتک اور حصار کے ہندو جاٹ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ ان کے تمام سٹال جلا دیئے۔ ان سٹالز پر کام کرنے والے مسلمان بیدردی سے قتل کر دیئے۔ پھر یہ جتھے وحشیوں کی طرح میلے میں دوڑے اور جہاں کہیں کوئی مسلمان نظر آیا قتل کر دیا۔ بقول مصنف صفحہ 90-198 عملی طور پر ہر مسلمان مرد عورت اور بچہ جو اس حدود میں موجود تھا۔ بیدردی سے قتل کر دیا گیا حتی کہ ہندوؤں کے اس ظلم سے حاملہ خواتین بھی نہ بچ سکیں۔ ایسی خواتین کے پیٹ پھاڑ دیئے۔ پیٹ میں پرورش پانے والے بچوں کو بیدردی سے نکال کر دیواروں کے ساتھ پٹخ کر مار دیا اور کچھ کو پاؤں کے نیچے روند دیا۔ نوجوان مسلمان عورتوں کی کھلے عام عصمت دری کی گئی۔ خواتین و بچوں کو ہندو غنڈوں نے ٹانگوں سے پکڑ کر زندہ انسانوں کو دو دو حصوں میں چیر دیا۔ بہت سے لوگوں کو کرپان جیسے نیزوں سے مارا اور کچھ کو پکڑ کر ان کی گردنیں کاٹ دیں۔ پھر ان کو بھی آگ لگادی گئی۔ جلتی لاشوں اور جلتے سٹالز کا نظارہ دیکھنے کے لئے ہندو خواتین کھڑی ہو کر تالیاں بجاتی رہیں اور اپنے مردوں کو مزید قتل و غارت پر اکساتی رہیں۔ بعد کے حالات سے یہ ثابت ہوا کہ یہ سب کچھ ہندو مہا سبھا کی منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا جس کے لئے ہند و مکمل طور پر پہلے ہی سے تیار اور مسلح تھے۔ 
 ’’گڑھ مختیسور کے مقامی ہندوؤں نے جاٹوں کے اس ظلم کے خلاف کچھ بھی نہ بولا۔ شہر میں اچھی بھلی مسلمانوں کی آبادی تھی۔ ہندو دستے مسلمانوں کے قتل عام کے لئے علاقے میں پھیل گئے اور یہ قتل و غارت اس وقت تک جاری رہا جب تک علاقے کے تمام مسلمان یا تو قتل کر دیئے گئے یا پھر جان بچانے کے لئے علاقے سے بھاگ گئے۔ بد قسمتی سے اس پورے علاقے میں کوئی انگریز آفیسر نہ تھا جو ان بے گناہ لوگوں کا قتل عام روک سکتا۔ علاقے کا ڈپٹی کمشنر ۔سپر نٹنڈنٹ پولیس اور پولیس اہلکار سب ہندو تھے۔ ان سب نے دل کھول کر اپنے لوگوں کی مدد کی۔ البتہ جہاں بھی انگریز انتظامی آفیسرز تھے ایسے فسادات پر فوری قابو پالیا گیا۔ 
 دوسرے دن روہتک کے جاٹ اور ہندو یاتری ملکر گڑھ مختیسور شہر اور اسکے گردو نواح میں مسلمان محلوں اور مسلمان گاؤں پر پھر اچانک حملہ آور ہوئے۔ ہر نظر آنے والے مسلمان مرد و عورت کو قتل کر دیا۔ عورتوں کی ابروریزی کی اور مسلمانوں کے مکانات جلا دیئے۔ علاقے کے تمام مسلمان ڈر کر بھاگ گئے۔ پھر یہ لوگ وحشی درندوں کی طرح چیختے چنگھاڑتے ہسپتال کی طرف دوڑے۔ ڈسٹرکٹ میڈیکل آفیسر۔ اسکی بیوی اور اسکے مسلمان سٹاف کو موقعہ پر قتل کر دیا۔ مسلمان مریضوں کا بھی یہی حشر کیا۔ پھر ایک مسلمان ڈاکٹر کے گھر پر حملہ کیا۔ ڈاکٹر کو بیدردی سے موقعہ پر ختم کر دیا۔ اسکی نوجوان بیوی کی نوجوان ہندو غنڈوں نے آبروریزی کی۔ پھر اس کے کپڑے اتار کر پورے شہر میں فتح کے طور پر اسے گھمایا گیا۔ اسی دوران اس نو جوان عورت نے اپنے ٹوٹے ہوئے بازو کے ساتھ نزدیک سے گزرتے ہوئے دریائے گنگا میں چھلانگ لگا دی جواب ہندوؤں کی نظر میں نا پاک ہو گیا۔ دوسرے کنارے پر اس بے ہوش عورت کا جسم ملا۔ اس وسیع قتل و غارت کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لئے سرکاری طور پر اموات کا اعلان نہ کیا گیا۔
 یہاں حیران کن بات ہے کہ موقعہ پر تقریبا دو در جن مکمل طور پر مسلح پولیس کے لوگ موجود تھے۔ کسی نے بھی اس انسانی المیے کو روکنے کی کوشش نہ کی۔ چار پولیس اہلکار شہر میں داخل ہوئے۔ ہجوم کے سروں کے اوپر گولیاں چلائیں اور پھر واپس آگئے جس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ میلہ کے علاقے میں ایک بڑی پولیس پوسٹ بھی تھی۔ مسلمانوںنے دوڑکر انہیں اطلاع دی لیکن پولیس نے ٹکا سا جواب دیدیا کہ یہ ان کی ذمہ داری نہیں۔ شام کو کچھ دیر کے لئے قتل و غارت رکی لیکن رات کو تازہ دم مسلح ہندو غنڈے مختیسور کے شہر میں مسلمان محلوں پر پھر حملہ آور ہوئے اور مظلوم مسلمان جہاں کہیں جان بچانے کے لئے بھاگ سکتے تھے بھاگ گئے۔
 قتل و غارت کی خبریں ارد گرد دیہات میں’’ میرٹھ‘‘ تک پھیل گئیں جہاں دونوں فرقوں کی طرف سے چھرا گھونپنے کے واقعات شروع ہو گئے۔ ’’شاہجہان پور ‘‘میں مسلمان اکٹھے ہوئے ’’گڑھ مختیسور ‘‘کے میلے سے واپس آتے ہوئے ہندو یاتریوں کے ریڑھے روک کرتیس ہندوؤں کو قتل کر دیا۔ بقول جنرل ٹکر مسلمانوں کی طرف سے قتل میں ایک واضح فرق تھا کہ انہوں نے ایک ہی دفعہ ان لوگوں کو قتل کیا۔ ہندوؤں کی طرح مسلمانوں کو عذاب دے کر نہ مارا۔ اس قتل کے رد عمل میں 10 نومبر کو جاٹ قبیلے نے ’’غازی آباد ‘‘کے قریب مسلمانوں کے’’ آرسن‘‘ نامی گاؤں پر حملہ کیا اور چالیس مسلمانوں کو بیدردی سے قتل کیا جن میں مرد، عورتیں اور بچے شامل تھے۔ 
ہندوؤں کی طرف سے خنجر زنی کی وارداتیں ’’میرٹھ اور روہتک ‘‘تک جاری رہیں۔ بقول جنرل ٹکر کو حکومت نے اصل اموات کو چھپایا لیکن اندازہ ہے کہ ان تمام واقعات میں ایک سے دو ہزار مسلمان قتل ہوئے۔ مسلمانوں کے بہت سے گاؤں اور اکا دکا مکانات راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ اتر پردیش اور مشرقی پنجاب میں مسلمان بھاگ کر کہیں جا بھی نہیں سکتے تھے۔ ان کے مقدر میں صرف ہندو غنڈوں کے ہاتھوں بیدردی کی موت یا پھر نیچ ذات بن کر ہندوؤں کی غلامی تھی۔ بعد میں انگریزوں کو ’’میرٹھ ‘‘میں مقیم ایک سینئر ہندو آفیسر سے پتہ چلا کہ اس قتل وغارت کی بہت پہلے سے مکمل منصوبہ بندی کی گئی تھی بعد میں اتر پردیش کے وزیر اعلی پنڈت پنت نے جوڈیشنل انکوائری کا اعلان کیا لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔
…………………(جاری ہے۔)

ای پیپر-دی نیشن