سپریم کورٹ : سنی اتحاد کی مخصو ص نشستیں دوسری جما عتوں کو دینے کا فیصلہ معطل
اسلام آباد ( نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل کردیا۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت کی۔وفاقی حکومت اور خواتین ارکان اسمبلی دونوں نے لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی۔وفاقی حکومت کی جانب سے بھی تین رکنی بنچ پر اعتراض کر دیا گیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے استدعا کی کہ اپیلیں لارجر بنچ ہی سن سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی تو اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ ہونا ہے، قابل سماعت ہونا طے پا جائے پھر لارجر بینچ کا معاملہ بھی دیکھ لیں گے۔ خواتین ارکان اسمبلی کے وکیل نے دلائل دیے کہ یہ آئین کے آرٹیکل 51 کی تشریح کا مقدمہ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کیس پانچ رکنی بنچ سن سکتا ہے۔ عدالت نے بنچ پر اعتراض مسترد کر دیا۔وکیل سنی اتحاد کونسل نے بتایا کہ خیبرپختونخواہ میں جے یو آئی کو 7 نشستوں پر دس مخصوص نشستیں دی گئیں، پیپلز پارٹی کو چار نشستوں پر 6 اور ن لیگ کو پانچ نشستوں پر 8 مخصوص نشستیں دی گئیں، مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ بچی ہوئی نشتسیں دوباری انہی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائے گی، ہمیں پبلک مینڈیٹ کی حفاظت کرنی ہے، اصل مسئلہ پبلک مینڈیٹ کا ہے، مخصوص نشستوں کی تقسیم کا آئینی اصول کیا ایک تکنیکی اصول سے ختم ہوسکتا ہے، اگر ایک سیاسی جماعت نے مخصوص نشستوں کیلئے فہرست جمع نہیں کرائی تو آئین نظر انداز ہو سکتا ہے؟،جسٹس منصور نے کہا کہ ہمارے لئے کوئی سیاسی جماعت متعلقہ نہیں ، اہم بات سیاسی جماعت کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے یا نہیں، 82 نشستوں پر آپ کے مطابق 23 مخصوص نشستیں بنتی ہیں، یہ سوال اہم ہے کہ بانٹی گئی مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں، کیا یہ 23 مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جاسکتی ہیں، ایسا آئین اور قانون میں ہے؟ اگر بانٹی گئی نشستیں دوبارہ نہیں بانٹی جا سکتی تو کیا وہ خالی رہینگی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی جماعت کو اتنی ہی مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں جتنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے ان کی بنتی ہیں، ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا، قانون میں یہ کہاں لکھا ہے کہ انتخابی نشان نہ ملنے پر وہ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی؟ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت تو ہے۔پی ٹی ا?ئی وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ جی یہی سوال لے کر الیکشن سے قبل میں عدالت گیا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کسی اور کا مینڈیٹ نظر انداز کر کے کیسے دیا جا سکتا ہے، بغیر معقول وجہ بتائے مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹی گئیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے الیکشن کمیشن حکام سے پوچھا کہ کیا آزاد امیدواروں کی نشستیں دیگر جماعتوں کو بانٹی جاسکتی ہیں؟ 200آزاد امیدواروں کی مخصوص نشستیں کیا 6 امیدواروں والی سیاسی جماعت کو مل جائیں گی۔وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے۔ اس پر کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی خواتین اور وکلاء نے قہقہے لگائے۔وکیل الیکشن کمیشن نے جوابا کہا کہ کمرہ عدالت میں موجود شرکاء ہنستے رہیں لیکن آئین یہی کہتا ہے، اگر آزاد امیدوار کسی سیاسی جماعت کو جوائن نہیں کرتا تو سیٹیں دیگر جماعتوں میں ہی بانٹی جائینگی۔سپریم کورٹ نے کیس کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کے علاوہ دوسروں کو دینے کے الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو معطل کردیا۔ عدالت نے وضاحت کی کہ فیصلوں کی معطلی صرف اضافی سیٹوں کو دینے کی حد تک ہوگی۔ عدالت نے لارجر بنچ کی تشکیل کیلئے کیس پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھی بھجوا دیا۔
لاہور+ اسلام آ باد (آئی این پی + نوائے وقت رپورٹ) حکومت نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے عبوری حکم پرتحفظات کا اظہار کردیا۔سپریم کورٹ کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کے دینے کے عبوری حکم اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے پر وزیر قانون نے کہا کہ یہ آئین کی تشریح کا معاملہ ہے، مناسب ہوتا لارجر بنچ کوئی حکم نامہ جاری کرتا۔انہوں نے کہا کہ پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار کے معاملے میں امتناع کے حکم سے احتراز برتا جانا چاہیے تھا، حتمی فیصلے میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا۔ وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کے تحت 5 رکنی لارجر بینچ کا معاملے کی سماعت کرنا موزوں ہوتا اور بہت مناسب ہوتا کہ اگر لارجر بینچ ہی عبوری حکم نامہ جاری کرتا۔ اعظم نزیر تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ منتخب رکن کے قانون سازی کے اختیار پر زد پڑتی ہو تو زیادہ احتیاط برتی جاتی ہے، آرٹیکل 67 واضح ہے کہ رکن کی طرف سے کی گئی قانون سازی قانونی نااہلیت کے باوجود برقرار رہتی ہے۔انہوں نے ایک اور حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 67 کے مطابق رکن کی قانون سازی کی اہلیت پر سوال نہیں اٹھایا جاتا، امید ہے حتمی فیصلیمیں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا۔ علاوہ ازیں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ یہ ہماری مخصوص نشستیں تھیں، ہمارے ساتھ غیر آئینی اور غیرقانونی سلوک ہوا ہے، پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل ہونے سے حکومت دو تہائی اکژیت سے محروم ہوگئی ۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ78مخصوص سیٹیں دیگر جماعتوں کو دی گئیں، ہم یہ کہتے رہے کہ کسی جماعت کو اس کے حق سے زیادہ سیٹیں نہیں مل سکتیں، ان مخصوص نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کا حق تھا۔ انہوں نے بتایا کہ آج سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا، ہمیں عدلیہ پر اعتماد ہے، عوامی حقوق کا تحفظ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے، ہماری عدلیہ سے درخواست ہے دیگر کیسز کو بھی ایسے ہی سنیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمارے کسی کے ساتھ مذاکرات نہیں ہورہے ہیں۔ بعد ازاں وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ آئین کا حلیہ بگاڑنے والوں کو شکست ہوئی ہے، فتح آئین اور سچائی کی ہوگی۔ کنول شوزب کا کہنا تھا کہ دن دیہاڑے ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا مگر سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہمیں بہت خوشی ہوئی۔