بے پردہ پردہ نشین
جنات طاقتور مخلوق سمجھے جاتے ہیں، اگرچہ وہ جسمانی اعتبار سے اتنے طاقت والے نہیں ہوتے ، چھ جنوں کو ایک اکیلا آدمی پچھاڑ دے لیکن ان کی اصل طاقت ’’ہارس پاور‘‘ نہیں، ان کی نظروں میں نہ آنے کی خاصیت ہے۔ وہ پکڑائی بھی نہیں دیتے۔ یہی معاملہ یا اس سے ملتا جلتا معاملہ ہمارے بے پردہ پردہ نشینوں کا ہے۔ کوئی انہیں بچھاڑ نہیں سکتا۔ ان کی طاقت جنّات سے بڑھ کر ہے۔ جنّات کو پردہ نشین کہا جا سکتا ہے لیکن صرف پردہ نشین، ہمارا واسطہ جن نگوڑوں سے پڑا ہے ، وہ پوری طرح بے پردہ ہیں، پھر بھی پردہ نشین ہیں۔
گندم کے بحران ہی کو لے لیجئے۔ قبلہ کاکڑ سرکار ہوں یا گوہر سرکار، شمشاد سرکار ہوں یا کیپٹن محمود سرکار، ان سب کو سبھی جانتے ہیں۔ گندم کی غیر ضروری، اربوں ڈالر کی درآمد کا جرم ایک منی قسم کا سقوط ڈھاکہ ہے لیکن دیکھ لیجئے گا، ہو گا کچھ بھی نہیں۔ خاص طور سے، یا کچھ کچھ خاص طور سے جب اس درآمد میں خود شہباز سرکار اور ڈار سرکار کا نام بھی ہو۔ بحران پر وزیراعظم نے جو تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی، یہ کالم چھپنے تک اس کی رپورٹ آ چکی ہو گی اور بظاہر رپورٹ آنے کے بعد معاملہ عقیدت و احترام کے ساتھ اپنی ’’تدفین‘‘ کی طرف بڑھ جائے گا۔ کسی ذمہ دار کے کسی بھی بال کو کسی بھی طرح سے بیکا نہیں ہونے دیا جائے گا۔
قصور کہیئے یا جرم، سب کا سب نگران اور بعدازاں وفاقی حکومت کا ہے لیکن بلا پنجاب حکومت کے گلے پڑتی نظر آ رہی ہے بلکہ پڑ گئی ہے۔ وہ برباد حال کسانوں سے گندم خریدنے کے قابل ہی نہیں رہی۔ منجملہ دیگر چیزوں کے، خریداری کیلئے بھاری رقم چاہیے لیکن نگران حکومت جانے سے پہلے سارے فنڈز ایلیٹ آبادیوں اور علاقوں کو سپر ایلیٹ بنانے پر اور فرزندان ایلیٹ کو نوازنے پر لگا گئی۔ پنجاب حکومت کو جو مدد وفاقی حکومت سے ملنی چاہیے تھی، اس کے ملنے کا بھی بظاہر کوئی امکان نہیں، کم از کم خاصی دور تک کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔
دس تاریخ کو کسان پنجاب بھر کی سڑکوں پر آ جائیں گے۔ پنجا ب میں مریم حکومت ناکردہ گناہوں کی پاداش میں گرفتار نظر آتی ہے۔ گندم کی درآمد جس ٹائم ٹیبل کے تحت ہوئی، وہ بظاہر بڑا انجینئرڈ نظر آتا ہے اور اس انجینئرنگ کا ’’ہدف‘‘ مریم نواز حکومت تھی جو اس وقت بنی نہیں تھی لیکن امکان صاف نظر آ رہا تھا کہ الیکشن کے بعد مریم ہی پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہوں گی۔ یعنی فروری مارچ کو سامنے رکھ کر یہ ’’انجینئرنگ‘‘ کی گئی۔ نواز شریف نے معاملے کا نوٹس لیا لیکن بے کار گیا کیونکہ وہ حکمران مسلم لیگ کے صدر نہیں ہیں۔
_____
فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے لیکن ثابت ہوا کہ ایسا ہے نہیں۔ فلسطین کو عرب مسئلہ بھی سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں بھی ثابت ہوا کہ ایسا ہے نہیں۔
فلسطین کا مسئلہ اپنی نوعیت میں یورپی ہے۔ غور فرما ئیے ، فلسطینیوں کے حق میں نکلنے والے 90 فیصد جلوس یورپی نسل کے ممالک میں نکلے اور بدستور نکل رہے ہیں اور یورپی نسل کا مطلب ہے چار برّاعظم۔: مادر برّاعظم یورپ، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا۔ ان سب برّاعظموں کے تمام بڑے شہروں میں چھ ماہ سے مظاہرے ہو رہے ہیں اور اب تو بہت ساری یونیورسٹیوں کے استاد اور طالب علم بھی ان مظاہروں میں شامل ہو گئے۔
اس کے برعکس مسلمان ممالک میں نکلنے والے جلوسوں کو تلاش کیجئے۔ سوائے اردن کے، کہیں بھی تسلسل سے مظاہرے نہیں ہوئے۔ پاکستان، انڈونیشیا، ترکی اور ملائیشیا نیز تیونس میں ہونے والے کل جلوسوں کی تعداد، ان پورے چھ ماہ میں ڈیڑھ درجن سے زیادہ نہیں۔ پاکستان میں سات آٹھ، ترکی میں کل دو عدد، انڈونیشیا میں چار پانچ، ملائیشیا میں دو تین، تیونس میں بھی دو تین مظاہرے ہوئے۔
سعودب عرب، امارات، قطر، کویت ، ایران ، مصر ، سوڈان سمیت باقی تمام مسلمان ممالک میں ایک بھی جلوس نہیں نکلا۔ جلوس کیا، کوئی ایک شخص بھی پلے کارڈ تک اٹھا کر سامنے آتا دکھائی نہیں دیا۔ افغانستان کی امارت اسلامی میں بھی نہیں۔
مذمت میں سخت بیان ملائیشیا، بنگلہ دیش اور پاکستان نے دئیے۔ باقی ممالک نے اتنا بھی نہیں کیا۔
کمال ترکی نے کیا۔ سارا عرصہء جنگ وہ اسرائیل کو بمبار طیاروں کیلئے تیل، فوج کیلئے خوراک، صاف پانی، پھل، سیمنٹ سریا فراہم کرتا رہا اور اب جبکہ جنگ ختم ہونے کے قریب ہے، اس نے اسرائیل کا عارضی بائیکاٹ کر دیا ہے۔ عارضی یعنی اس نے کہا ہے کہ جب تک غزہ کیلئے امدادی قافلوں کو اجازت نہیں دی جاتی، بائیکاٹ جاری رہے گا۔
جنگ کا اختتامی مرحلہ شروع ہو گیا، کب تک رہے گا پتہ نہیں۔ لیکن اس اختتامی مرحلے میں بھی ہر روز سو پچاس فلسطینی قتل کئے جا رہے ہیں۔ اور ابھی ، آج کل میں آخری حملہ رفاہ پر ہونا ہے۔ کئی ہزار ہلاکتیں متوقع بلکہ شاید یقینی ہیں۔ پھر امن مرحلہ شروع ہو گا۔ فلسطینی شہدا کی تعداد 40 ہزار سے بڑھ گئی، زخمی ایک لاکھ ہیں اور یہاں زخمی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کچھ دن مرہم پٹی ہو گی ، پھر ٹھیک ہو کر گھر آ جائیں گے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ زخمی عمر بھر کیلئے معذور ہو گئے، کسی کی دونوں ٹانگیں کٹ چکیں، کسی کی ایک، کسی کے دونوں بازو کٹ چکے، کسی کا ایک۔
گویا 40 ہزار لاشیں، ایک لاکھ زندہ لاشیں۔
______
پاکپتن میں بااثر زمیندار نے اپنے بیگار کیمپ سے بھاگنے والے دو نوجوانوں کو پکڑ کر درخت سے باندھ دیا اور لاٹھیوں سے اتنا مارا کہ ایک مر گیا، دوسرا بری طرح زخمی اور جاں بلب ہے۔ بعدازاں اس نے مقتول کی بیوی پر قبضہ کر کے اپنی غیر منکوحہ بیوی بنا لیا۔ لوگوں کے احتجاج پر پولیس نے قاتل زمیندار اور بیگار کیمپ کے مالک سرفراز وٹو کو عارضی طور پر گرفتار کر لیا ہے۔ آج کل میں ملزم کی باعزت ضمانت ہو جائے گی۔
بھارت میں وہ خدا?ں کی خدائی ختم ہو گئی، ہمارے ہاں بڑھ گئی حالانکہ دونوں ملک اکٹھے آزاد ہوئے تھے۔ بھارت میں اصلاحات کا عمل جاری رہتا ہے۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی ہے کہ وہاں ’’سٹے آرڈر‘‘ آتے ہیں نہ تاحیات ضمانتیں ملتی ہیں۔ وہاں حکمرانی پارلیمنٹ کی ہے۔