منگل‘ 28 شوال المکرم 1445ھ ‘ 7 مئی 2024
لاہور اور کراچی کا ایک ایک پاسپورٹ دفتر 24 گھنٹے کھلے گا وزیر داخلہ۔
لاہور اور کراچی کے دفاتر کو 24، 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا فیصلہ کیوں کرنا پڑا ؟ ملک بھر میں پاسپورٹ کی چھپائی کا عمل ایک بار پھر متاثر ہوگیا تھا، جبکہ دستاویزات کی طباعت کا بیک لاگ ایک بار پھر 2 لاکھ سے تجاوز کرگیا۔دسمبر اور جنوری میں پاسپورٹ کے لیے اپلائی کرنے والوں کو تاحال پاسپورٹ نہیں مل سکے، دسمبر اور جنوری میں پاسپورٹ کے حصول کے لیے فارم جمع کرانے والوں کو پاسپورٹ حج آپریشن مکمل ہونے کے بعد دیئے جائیں گے۔ حج آپریشن کی وجہ سے پاسپورٹ کا عمل متاثر ہوا ، کہا گیا ہے کہ صرف حج پر جانے والے افراد کو اس وقت ترجیح دی جارہی ہے۔پہلی ترجیح عازمین حج کو دی جانی چاہیے مگر باقیوں کو نظر انداز کر دینا بھی قرین انصاف نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح سے معاملات چل سکتے ہیں۔معمولات کو جام کر کے نہیں رکھا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں رحمان ملک وزیر داخلہ تھے۔ چند ماہ میں پاسپورٹ کا بحران اونچائیوں پر نظر آنے لگا۔ وہ کسی کو پوچھتے نہ کوئی ان کو پوچھتا تھا۔ پاسپورٹ بنوانے والے ذلیل و خوار ہو کے رہ گئے تھے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت بنی۔وزیر داخلہ چوہری نثار علی خان نے لاتوں کے بھوتوں کی دم پر پاو¿ں رکھا تو دو مہینے میں دم سیدھی ہو گئی۔محسن نقوی کو کام اور کارکردگی کی وجہ سے محسن سپیڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے پاسپورٹ کا بحران سر اٹھا لے۔ یہ حیران کن بلکہ پریشان کن ہے۔ اصل میں ملک میں بہت زیادہ بگاڑ ہے اور پاسپورٹ بنانے والوں کا تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔محسن نقوی اپنے ہاتھوں سے راشیوں کو پکڑتے ہیں اور نکال باہر کرتے ہیں۔ یہاں پہ اوور سپیڈ کی ضرورت ہے۔حجاج بن یوسف نہ بنیں مگر نواب آف کالا باغ اور غلام مصطفی کھر کی مثالیں ضرور سامنے رکھیں۔ذخیرہ اندوزوں نے گندم کا بحران پیدا کر دیا۔ نواب نے ڈیلروں کو بلا لیا۔ ان کو صرف یہ کہا کہ آج میں گندم کی قیمت 22 روپے سن رہا ہوں کل20 روپے من ہو،ایسا ہی ہوا غلام مصطفی کھر گورنر بنے تو انہوں نے کہا کہ پنجاب میں کل سے کسی کی کوئی بھی چوری ہو جائے وہ گورنر ہاو¿س آکر وصول کر لے۔ واقعی اس دور میں پنجاب سے چوری جڑوں سے ختم ہو گئی تھی۔ محسن نقوی دھیرے سے کام کرتے ہیں بڑھکیں نہیں مارتے اور ضرورت بھی بڑھک سنگھ بننے کی نہیں ہے۔ ضروت کھڑک سنگھ کی ہے۔ان حالات میں کھڑکیاں کھڑکانے والا کھڑک سنگھ بننا پڑے گا۔
٭....٭....٭
آئندہ کوئی انڈسٹریل اسٹیٹ زرعی زمین پر نہیں بنے گی۔چودھری شافع حسین۔
اگر کسی نے انڈسٹریل اسٹیٹ وزیر صنعت و تجارت شافع چودھری سے پوچھ کر بنانی توہرگزہرگز نہیں بنے گی۔ شافع چوہدری نے وزیر بننے کے لیے بڑی محنت کی۔ آج اس سے بھی زیادہ محنت اپنی وزارت کوبچانے اورکامیابی سے چلانے کے لیے کر رہے ہیں۔وزارت چل رہی ہے، دوڑ رہی ہے یا رینگ رہی ہے؟۔ کوئی اس شعبے کاماہر ہی بتا سکتا ہے۔ ہاو¿سنگ سوسائٹیاں بھی کہا جاتا ہے زرعی اراضی پر نہیں بنیں گی مگر بن رہی ہیں۔ اونچے اونچے پلازے بن رہے ہیں جن میں پارکنگ ضرورت کے مطابق رکھنے کا قانون موجود ہے۔ یہ شرط اپنی دو تین گاڑیوں کی پارکنگ پلیس دکھا کر پوری کر لی جاتی ہے۔ اس حوالے سے منظوری دینے والے افسر کی جیب اور معدے کا سائز لیا جاتا ہے۔ بنکوں سے قرض کے لیے درخواست لے کے جانے والوں کو دو درخواستیں افسر کی طرف سے دی جاتی ہیں ایک قرض لینے اور دوسری قرض معاف کرانے کی۔ ہاو¿سنگ سوسائٹیز میں کچن گارڈننگ کے لیے جگہ چھوڑنا لازم ہے مگر اس ضابطے کی پابندی کوئی کون کرتا ہے۔ چودھری صاحب نے ڈیڈ لائن نہیں دی کہ ان کے احکامات کا اطلاق کب سے ہوگا۔ اویس لغاری نے23 اپریل بجلی چوری کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ اس تاریخ تک چوری کی اجازت تھی؟ اس کے بعد بھی چوری جاری ہے۔ کیا ڈیڈ لائن بڑھا دی گئی یافری ہینڈ دے دیا گیا۔
٭....٭....٭
سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے بھکاریوں کو جیل میں رکھنے سے انکار کر دیا۔
ہر جیل کا نام اور سٹیٹس ہوتا ہے۔ کچھ جیلیں بھی کسی حوالے سے مشہور ہیں۔ رانا ثناءاللہ نے عمران خان کو مچھ جیل بھجوانے کی بھی دھمکی لگائی تھی۔ اڈیالہ جیل میں نامور سیاستدان قید کاٹ چکے ہیں۔ آج کل عمران خان، شاہ محمود قریشی اور پرویز الٰہی وہاں بند ہیں۔ بشریٰ بی بی بھی اسی جیل میں چند روز قید رہیں۔ مریم نواز اور میاں نواز شریف کو بھی زرداری صاحب کی طرح اڈیالہ جیل میں شب و روز گزارنا پڑے تھے۔ بھٹو سمیت اور بھی بہت سے نامی گرامی اڈیالہ جیل یاترا کر چکے ہیں۔ اس تاریخی جیل میں بھکاری بھی رہیں؟۔ ان کو بھی تاریخی حیثیت مل جائے؟ ان بھکاریوں میں خواجہ سرا ،اندھے، ٹانگوں بازوو¿ں سے اپاہج بھی ہوتے ہیں۔ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ اسی محاورے کے مصداق سپرنٹنڈنٹ نے سمجھ لیا ہوگا کہ یہ منگتے جیل کے عملے سے بھی مانگیں گے۔ ”ہم لیں مانگ کے، تمہیں دیں ٹانگ کے“۔ جیل میں ملاقات کے لیے جانے والا اور قید کاٹ کر رہا ہونے والا”س±کا“ واپس آسکتا ہے؟ کچھ نہ کچھ لگانا پڑتا ہے۔خان صاحب کی آدھی دیسی مرغیاں تو عملہ کھا جاتا ہوگا۔ خبر کے مطابق جیلر نے کہا ہے کہ جیل میں قیدیوں کی گنجائش 2174 ہے جبکہ سات ہزار سمائے ہوئے ہیں لہٰذا اسلام آباد انتظامیہ مزید بھکاری نہ بھجوائے۔ بھکاریوں کو قیدکیوں کرناہے۔ ان کے لیے پناہ گاہیں نہیں بنا سکتے تو جنگلوں میں چھوڑ آئیں۔ یا جیلوں کا جال بچھا دیں۔
٭....٭....٭
برطانیہ میں5ارب روپے کی دیسی شادی اوردولت کی فاحشانہ نمائش۔
پیسہ بولتا ہے۔ شادیوں پر تو دھمالیں ڈال کے بولتا ہے۔ اور ہر کہیں بولتا ہے۔ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور افریقہ جیسے پسماندہ ممالک تو کیا، عرب اور یورپ میں بھی بولتا ہے۔ امبانی کا تیس ہزار ایکڑ پر ''امبوں" کا باغ ہے۔ان کے بیٹے کی شادی جولائی میں ہونی ہے مگر تقریبات ایک سال قبل شروع کر دی گئیں، پچاس ہزار مہمانوں کی سیوا آم کے باغ میں کی گئی۔ ہمارے ہاں د±لہا کبھی گھوڑے پر سوار ہو کر بارات کی سربراہی کرتا تھا اب گاڑی میں ہمراہی کرتا ہے۔ عموماً کرائے کی گاڑی ہوتی ہے۔ کئی تو شیروانی بھی کرائے پر لے کر پہنتے ہیں۔ دلہن کا لہنگا مہنگا ہوتا ہے یہ بھی کرائے پر دستیاب ہے۔ برطانیہ میں ایک دو روز قبل 5ارب روپے میں دیسی شادی ہوئی۔
یہ شادی فرانس کے عالیشان ہوٹل گرینڈ ایلی میں ارب پتی عمر کامانی کی معروف ماڈل نادہ ایڈیلی سے پسند کی شادی ہے۔شادی میں دنیا کی معروف شخصیات بھی شریک تھیں۔ 4 روز تک جاری رہنے والی شادی کی تقریبات میں سےایک تقریب دیسی طریقہ کار کے تحت تھی جس میں دلہے نے شیروانی اور دلہن نےسلور رنگ کا لہنگا زیب تن کیا ہوا تھا۔جبکہ دوسرے دن کی تقریبات میں جوڑے نے مغربی طور طریقے کے تحت اس خاص دن کو مزید یادگار بنایا۔ تقریبات پر 20 ملین یورو کا خرچہ آیاہے جو کہ پاکستانی 5 ارب سے زائد کی رقم بنتی ہے۔ یہ تو بدیس میں دیسی شادی کی روداد تھی۔ کچھ عرصہ قبل انڈیا میں ایک شادی ہوئی اس پر بھی اتفاق سے5ارب روپے خرچہ آیا مگر یہ بھارتی روپوں میں تھا۔ اس شادی کو عجیب نام دیا گیا۔کاروباری شخصیت اور سابق وزیر جی جاناردھن ریڈی کی بیٹی برہمنی کی شادی پر پانچ ارب انڈین روپے کا خرچہ آیا ہے۔سونے کی پلیٹوں والے دعوت نامے اور بالی وڈ کے ستاروں کی پرفارمنس سے مزین یہ شادی خاصی متنازعہ ہو گئی۔ ناقدین نے اسے 'دولت کی فاحشانہ نمائش' قرار دیا تھا۔یہ شادی انڈین حکومت کے اس اعلان کے چند ہی روز بعد منعقد ہو ئی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ ختم کر رہی ہے۔