• news

بھارت کو اسحاق ڈار اور فاروق عبداللہ کا مسکت جواب

نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ پاکستان محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کے بارے میں بھارتی رہنماﺅں کے اشتعال انگیز بیانات اور بلاجواز دعوے علاقائی امن کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔ بھارت کشمیریوں کو ان کی سرزمین پر ایک بے اختیار کمیونٹی میں تبدیل کرنے کیلئے کوششیں اور کشمیری عوام کو منظم طریقے سے انکے بنیادی حقوق اور آزادی سے محروم کر رہا ہے۔ دفتر خارجہ سے اس سلسلہ میں جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم نے گزشتہ روز گیمبیا کے شہر بنجول میں 15ویں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر جموں و کشمیر کے بارے میں او آئی سی رابطہ گروپ سے خطاب کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ آزاد جموں و کشمیر کے بارے میں بھارتی رہنماﺅں کے اشتعال انگیز بیانات اور بلاجواز دعوﺅں کا نوٹس لے۔ اسحاق ڈار نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بھارت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرے‘ کالعدم سیاسی جماعتوں سے پابندیاں اٹھائے‘ پانچ اگست 2019ءکے غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات اور اسکے بعد اٹھائے گئے ان اقدامات کو بھی منسوخ کرے جن کا مقصد مقبوضہ وادی میں آبادیاتی تبدیلی اور سیاسی انجینئرنگ ہے۔ انہوں نے اس امر کا بھی تقاضا کیا کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے قابل قبول حل کیلئے یواین سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کو عملی جامہ پہنائے۔ 
او آئی سی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل برائے سیاسی امور اور سیکرٹری جنرل کے خصوصی ایلچی برائے جموں و کشمیر یوسف الدوبے کی زیرصدارت ہونیوالے رابطہ گروپ کے اس اجلاس میں بھارت کے غیرقانونی طور پر زیرقبضہ جموں و کشمیر میں سیاسی اور سکیورٹی ماحول اور مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں او آئی سی کے رکن ممالک کے وفود نے او آئی سی کے ایجنڈے میں تنازعہ جموں و کشمیر کی اہمیت کا بطور خاص تذکرہ کرتے ہوئے کشمیریوں کی حق خودارادیت کیلئے جائز جدوجہد کی یواین سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حمایت کا اعلان کیا۔ 
اس تلخ حقیقت سے تو اب پوری اقوام عالم مکمل آگاہ ہو چکی ہیں کہ اس خطے میں اور اس خطے کے امن و امان کو درپیش مسائل کے تناظر میں بھارت پوری عالمی برادری میں فساد کی اصل جڑ کے طور پر بے نقاب ہو چکا ہے جس کے توسیع پسندانہ عزائم سے پہلے پاکستان اور چین سمیت خطے کے ممالک کو خطرات لاحق تھے جبکہ اب ایک عالمی دہشت گرد کے روپ میں وہ عالمی امن و سلامتی کو بھی کھلے عام چیلنج کر رہا ہے۔ بھارت نے اگست 1947ءمیں ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت میں پاکستان کی تشکیل کو تو بادل نخواستہ قبول کرلیا تھا مگر ہندو انتہاءپسند بھارتی لیڈران کو مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم ہرگز گوارا نہیں ہوئی چنانچہ انہوں نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں کا شروع دن سے ہی آغاز کر دیا جس کیلئے سب سے پہلے بھارت نے مسلم اکثریتی آبادی والی ریاست ہونے کے باوجود جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور اس پر بھارتی تسلط جمانے کے بعد جواہر لال نہرو اسے متنازعہ علاقہ قرار دیکر تصفیہ کیلئے اقوام متحدہ جا پہنچے جس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور اپنی قرارداد کے ذریعے بھارت کے ناجائز زیرتسلط کشمیر میں اقوام متحد کے مندوب کی نگرانی میں رائے شماری کا کہا۔ سلامتی کونسل کی اس قرارداد کی یواین جنرل اسمبلی نے بھی توثیق کی مگر بھارت آج تک اس راستے پر نہیں آیا جس نے مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جبکہ کشمیریوں نے بھارتی جبر کا کوئی ہتھکنڈہ قبول نہیں کیا اور انہوں نے گزشتہ 76 سال سے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ 
پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کیلئے بھارتی سازش کشمیر کے راستے پاکستان آنیوالے دریاﺅں کے پانی پر اپناتسلط جمانے کی تھی اور اس مقصد کے تحت ہی اس نے جموں اور لداخ پر اپنا ناجائز تسلط جمایا جس کی بنیاد پر اس نے پاکستان پر آبی دہشت گردی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان پر جارحیت مسلط کرنے کی سازشوں کا بھی آغاز کر دیا جن کے تحت بھارت نے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں اور اسے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا جبکہ اس نے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرکے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں کا بھی آغاز کردیا۔ پاکستان میں پھیلائی دہشت گردی بھی انہی بھارتی سازشوں کا شاخسانہ ہے۔ اس نے شملہ معاہدے کے ذریعے تنازعہ کشمیر کے حل سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادیں غیرموثر بنانے کی بھی سازش کی مگر اسکے باوجود وہ پاکستان کے موقف کو کمزور کر سکا نہ خود پر پڑنے والا عالمی دباﺅ ہٹا سکا جبکہ کشمیریوں کی بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی چنانچہ بھارت نے کشمیر کا ٹنٹا اپنے تئیں ختم کرنے کیلئے پانچ اگست 2019ءکو بھارتی لوک سبھا سے کشمیر سے متعلق آئینی ترامیم ختم کراکے جموں اور لداخ کو بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنالیا۔ مگر یہ بھارتی ہتھکنڈہ بھی اسکے گلے پڑ گیا اور اقوام عالم میں اسکے توسیع پسندانہ عزائم مزید کھل کر سامنے آگئے۔ نتیجتاً مودی سرکار مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام عالم کے مزید دباﺅ کی زد میں آگئی۔ اسکے باوجود بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھی ہوئی ہے اور نریندر مودی خود آزاد کشمیر‘ بلوچستان اور پاکستان سے ملحقہ شمالی علاقہ جات پر بھی بھارتی تسلط جمانے کی گیدڑ بھبکیاں لگاچکے ہیں۔ ایسی ہرزہ سرائی بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ سمیت بھارتی وزراءبھی کرتے رہتے ہیں جو پاکستان پر ننگی جارحیت مسلط کرنے کی اعلانیہ دھمکی کے مترادف ہے اور یہی بھارتی عزائم علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ 
اسی تناظر میں گزشتہ روز جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے رہنماء اور سابق وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر فاروق عبداللہ نے بھارتی وزیر دفاع سمیت مودی سرکار کو چیلنج کیا ہے کہ اس میں ہمت ہے تو آگے بڑھے‘ پاکستان نے کوئی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ راجناتھ نے تو یہ بڑ ماری ہے کہ آزاد کشمیر والے بھی بھارت کے ساتھ شامل ہونے کا مطالبہ کرینگے جبکہ مودی سرکار اپنے جبراً ہڑپ کردہ جموں و کشمیر میں بھی بھارتی تسلط سے آزادی کی تڑپ ختم نہیں کر سکی اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر پاکستان بھارت جنگ کی راہ ہموار کر رہی ہے جو یقیناً ایٹمی جنگ ہوگی اور یہ دونوں ممالک ہی نہیں‘ پورا خطہ اور پورا کرہ ارض اس ایٹمی جنگ کی زد میں آئیگا۔ فاروق عبداللہ نے اسی تناظر میں مودی سرکار کو باور کرایا ہے کہ پاکستان کے پاس بھی ایٹم بم ہیں جو ہم پر ہی گریں گے۔ یہی بھارتی عزائم عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہیں جنہیں بھارت کی جنونیت کا اسکے ہندو انتہاءپسندی والے عزائم کی بنیاد پر بھی ادراک ہو چکا ہے۔ اگر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی مقصود ہے تو اقوام عالم کو بھارتی توسیع پسندانہ ہاتھ بہرصورت روکنا اور کشمیر و فلسطین کے دیرینہ مسائل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر حل کرنا ہونگے۔ بھارت تو بہر صورت علاقائی اور عالمی امن کو خاکستر کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن