وطن عزیز میں چند روز
میرے شہر کی ترقی میں بلاشبہ اضافہ ہوا ہے مگر! شہر اقبال کی صفائی‘ ٹریک کے بے ہنگم نظام‘ شاہراہوں کے ہائی وے ایریا کا غیرقانونی استعمال پیشہ ور گداگری اور ریلوے ٹریک اور سٹیشن کی ناگفتہ بہ حالت کو ماضی کی طرح پایا۔ پرائیویٹ سکولوں کی بھرمار مگر ماہر تعلیم ایک دوست نے بتایا کہ ملک میں اب بھی 27 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ امتحانی مراکز بیچنے کا بھی انکشاف ہوا۔ ’’ہلال امتیاز‘‘ اور ’’ستارہ امتیاز‘‘ کے اصل حق داروں سے ہونیوالے اس مبینہ سیاسی ظلم پر بھی دکھ ہوا۔ ملک کی 395 جیلوں میں مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بھی مجھے بتایا گیا۔ سیالکوٹ کے سابق میئر کیپٹن (ر) ڈاکٹر محمد اشرف آرائیں کا شمار چونکہ میرے چاہنے والوں میں ہوتا ہے‘ انکے حکم پر انکے دردولت حاضری دی۔ برادر آصف بھلی نے مصروفیات کے باوجود بے لوث چاہت کا اظہار کیا۔ لاہور میں سابق ڈی جی پی آر شعیب بن عزیز‘ پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری‘ پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری‘ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود‘ مجید غنی‘ ڈاکٹر سلیم اختر‘ سابق ایم این اے‘ میاں محمد آصف‘ نوائے وقت کے ایڈیٹوریل انچارج سعید آسی برادرم فضل حسین اعوان اور نوائے وقت کے چیف اپریٹنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل (ر) ندیم قادری سے تعلیم‘ صحت‘ علم و ادب‘ غربت اور بے روزگاری سمیت ملک کے معاشی و اقتصادی حالات پر تبادلہ خیال ہوا۔
سیالکوٹ کی ترقی میں بلاشبہ اضافہ ہوا ہے مگر شہر اقبال کی ناقص صفائی‘ ٹریک کا بے ہنگم شور‘ پیشہ ور گداگری اور بارشوں میں ایئرپورٹ روڈ گوہدپور پر جمع گدلے پانی کے عدم نکاس پر دلی دکھ پہنچا۔ ماہر اقتصادیات دوست ناصر نے یہ انکشاف کرتے ہوئے مغموم کر دیا کہ ملک میں 27 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں۔لاہور میں سابق ڈی جی پی آر اور انفارمیشن سیکرٹری شعیب بن عزیز‘ پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری‘ پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری‘ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود‘ مجید غنی‘ سابق ایم این اے میاں محمد آصف‘ مسلم لیگ (ضیاء الحق) کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی اعجازالحق اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے مفید ملاقاتیں ہوئیں۔ اپنے شہر سیالکوٹ کی شاہراہوں‘ بسوں‘ کوچز اڈوں اور رہائشی بستیوں کے اردگرد پھیلی گندگی‘ دھواں چھوڑتی گاڑیوں اور کچہری روڈ ریلوے پھاٹک پر رکشاؤں‘ ٹیکسیوں‘ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے مناظر وہی تھے جو کبھی اپنے کالج کے زمانے میں دیکھا کرتا تھا۔ ریلوے پھاٹک آج بھی ٹریفک کیلئے درد سر بنا ہوا ہے۔ 1976ء میں اس مرکزی ریلوے پھاٹک کے بند ہونے پر سکوٹروں‘ بسوں اور گاڑیوں سمیت بائیسکل سواروں کی طویل قطاریں دیکھنے کو ملا کرتی تھیں۔ ٹرین کی آمد سے پہلے پہلے بیشتر سائیکل سوار بند ریلوے پھاٹک کے باوجود سائیکلیں کندھوں پر اٹھا کر کسی بھی خطرے کی پرواہ کئے بغیر ریلوے ٹریک اس لئے عبور کرتے کہ انہیں ہر حال میں جلداز جلد اپنے کام پر یا ایمرجنسی میں پہنچنا ہوتا تھا۔ مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ پھاٹک کی راہداری آج بھی جوں کی توں ہے۔
سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے بانی چیئرمین میاں محمد ریاض چونکہ میرے میزبان تھے اس لئے ان سے علاقائی تعلیم‘ صحت اور بچوں کی بہبود کے حوالے سے ایسے ادارے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا جن کے بارے میں اہل سیالکوٹ زیادہ ’’سرکھپائی‘‘ نہیں کرتے۔ اس سلسلہ میں آغاز سیالکوٹ کے ہی ایک پرائیویٹ ادارے Education Behavior+ Special سے کیا۔ ذہنی اور جسمانی طور پر معذور افراد کی خصوصی تربیت کے حامل اس ادارے کا قیام Bases کے نام پر 2018ء میں اسلام آباد میں محترمہ جواہر علوی نے کیا اور یوں سیالکوٹ سمیت ملک میں اب تک اسکی 6 برانچیں قائم کی جا چکی ہیں جہاں معذور بچوں کی جدید خطوط پر تربیت اور ذہنی اور جسمانی طور پر پیدائشی یا حادثاتی طور پر معذور افراد کی نگہداشت کی جاتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان میں اس وقت سات ملین بچے اور نوجوان ایسے ہیں جو پیدائشی طور پر اور 21 برس کی عمر میں دماغی اور جسمانی عارضے کا شکار ہیں۔ زیادہ تر بچے سیکھنے کی قوت‘ والدین‘ اساتذہ اور دوستوں کے منفی رویے کے علاوہTherapy Speech اور مختلف نوعیت کے Autism میں مبتلا ہیں۔ یہاں آپ کو یہ آگہی دینا بھی ضروری ہے کہ ’’آٹزم‘‘ آخر ہے کیا؟
بنیادی طور پر آٹزم دماغی نشوونما میں رکاوٹ ڈالنے والا ایک ایسا مرض ہے جو بچے کی بول چال‘ اسکی عادات اور اسکے سماجی تعلقات اور اسکی ذہانت کے بعض پہلوئوں پر بری طرح اثرانداز ہوتا ہے۔ اس مرض کا اگر بروقت علاج اور اسکی بروقت تشخیص نہ کی جائے تو بچے کی زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں ابھی آٹزم کے بارے میں والدین کو مکمل آگہی نہیں اس لئے تھراپیز خصوصی تربیت اور خصوصی تعلیم کے بجائے اس مرض کا علاج دیسی ٹوٹکوں سے کیا جاتا ہے جو عمر بڑھنے کے ساتھ بچوں کی زندگی کو زیادہ متاثر کر سکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر 66 میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہے۔ اس بیماری کے شکار بچوں کا دنیا بھر میں ہر سال 2 اپریل کو خصوصی طور پر دن منایا جاتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے بچوں کیلئے خصوصی تعلیم اور قومی دھارے میں انہیں لانے کیلئے مزید ادارے قائم کئے جائیں جن کی حکومت سرپرستی کرے۔ Bases نامی اس ادارے کے دورہ کا اہتمام چونکہ ڈائریکٹر صہیب قیصر نے کیا تھا اس لئے انہوں نے ادارے کے وزٹ کے دوران بتایا کہ محترمہ جواہر علوی اس ادارے کی بین الاقوامی سی ای او ہیں‘ سیالکوٹ کیمپس کی سی ای او مسز ماہ رخ ریحان اور مسٹر Unaza صہیب بطور سی ای او خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ کیمپس کے مختلف شعبے دیکھے جہاں انتہائی تربیت یافتہ سٹاف والدین کے اشتراک سے بچوں کیلئے مختلف تھراپیز کرانے پر مامور ہے۔ تھراپیز اور دیگر تربیتی پروگرامز سمیت بچے کی ماہانہ فیس 25 ہزار روپے ہے تاہم قلیل تنخواہ لینے اور کمزور معاشی حالات سے دوچار والدین کیلئے ادارے نے خصوصی رعات دے رکھی ہے۔ (جاری )