• news

جمعرات،    1445ھ،9 مئی  2024ء

 کپتان مروت سے ناراض۔ جیل میں ملاقات نہیں کی
بڑوں نے یونہی تو نہیں کہا تیز دوڑنے والا منہ کے بل گرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اس سے مفر ممکن نہیں۔ گناہ کی معافی میں تو جلدی بہتر ہے مگر دیگر معاملات میں تیزی یا جلد بازی اچھی نہیں ہوتی۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے جلد بازی شیطان کا کام ہے۔ اب یہی فارمولا سیاسی میدان میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ یہاں کئی رہنما آندھی کی طرح آئے طوفان بن کر چھائے اس کے بعد کیا ہوا سب کو معلوم ہے۔ رفیق احمد باجوہ اور جاوید ہاشمی اس کی مثال ہیں۔ ایسی ہی صورتحال آج کل ہماری سیاست میں شیرافضل مروت نامی سیاستدان کو درپیش ہے۔ پی ٹی آئی میں اچانک جس طرح احتجاجی کہہ لیں یا تخریبی سیاسی طرز عمل میں وہ نمودار ہوئے وہ باقی رہنمائوں کے لیے خاصہ حیران کن تھا۔ ان کے جارحانہ انداز کو پی ٹی آئی کے جذباتی کارکنوں نے جی کھول کر داد دی ہے۔ اس کے بعد تو بیرسٹر سیف، عمر ایوب، علی امین گنڈا پور اور لطیف کھوسہ کا چراغ ان کے سامنے ماند پڑنے لگا۔ ہر جگہ لوگ انہی کی سنتے اور سر دھنتے۔ وہ بھی خوب بڑھ چڑھ کر اپنا چورن فروخت کرتے سب کو للکارتے۔ اسی پر انہوں نے بس نہیں کیا، اس سے کہہ لیں یا اپنی حد سے بھی آگے بڑھ کر پاکستان کے قریبی دوست ممالک پر بھی بڑھ چڑھ کر حملے کرنے لگے۔ اس پر لوگوں کے ماتھے ٹھنکے کہ اب بہت ہو گئی۔ جلد ہی کچھ نہ کچھ ہو کے رہے گا۔ خاص طور پر سعودی عرب کے حوالے سے ان کا بیان پارٹی کے بانی کو بھی ناگوار گزرا کیونکہ سعودی ولی عہد کی گاڑی ڈرائیو کرنا وہ اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ شیرافضل مروت کی طرف سے  پی اے سی کی چیئرمین شپ کیلئے تابیوں اور بے تکے بیانات پر ناخوش تھے۔ چنانچہ گزشتہ روز جب مرو ت جی اپنے قائد سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل گئے تو انہوں نے ملاقات سے انکار کر دیا اور مروت کو بے نیل و مرام واپس لوٹنا پڑا۔ باہر نکلتے ہی حسب معمول مروت نے غلط بیانی کی کہ مجھے ملنے نہیں دیا گیا۔ مگر بعدمیں سچ سامنے آ گیا۔ یہ ہوتا ہے اونچا اڑنے والوں کے ساتھ۔ اندر جیل میں بانی جماعت کو کیا رپورٹیں نہیں ملتی ہوں گی کہ مروت جی اب خود کو ون ٹو آل سمجھنے لگے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہیں اب ان کا انجام بھی رفیق باجوہ اور جاوید ہاشمی جیسا نہ ہو۔ یہ دونوں بھی بڑے دبنگ سیاستدان تھے۔ 
بلوچستان میں پی ایس ایل کے میچ کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ محسن نقوی
یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ملک کے سب سے بڑے رقبے کے لحاظ سے صوبے میں بھی پی ایس ایل کے میچ کرانے کا مثبت خیال ہمارے وزیر داخلہ اور چئرمین پی سی بی کو آیا اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے بھی اس سلسلے میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ورنہ سوشل میڈیا پر تو جذباتی عناصر نے خوب ادھم مچایا ہوا ہے کہ موجودہ قومی کرکٹ ٹیم میں بلوچستان کے کسی کھلاڑی کو شامل نہیں کیا گیا۔ اب صوبے میں انٹرنیشنل سطح کے میچ کرانے سے کم از کم عوام کی تشفی ہو گی کہ ان کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ کوئٹہ کے علاوہ گوادر میں بھی میچوں کے انعقاد پر غور کیا جا رہا ہے۔ ان کے سٹڈیم میں فلڈ لائٹس لگائی جائیں گی۔ اسی طرح وزیر اعلیٰ بلوچستان نے بھی سکیورٹی بہتر بنانے اور فراہم کرنے کا کہا ہے۔ یہ سب باتیں بہت اچھی ہیں مگر خدا را پہلے صوبے کے کھیل کے میدانوں اور سٹیڈیمزکی حالت زار پر بھی توجہ دی جائے۔ ان کی تعمیر و مرمت کر کے ان کی حالت بہتر بنائیں تاکہ بعد میں شرمندگی نہ ہو۔ بلوچستان کے عوام کھیلوں جیسی صحت مند تفریح کے دیوانے ہیں۔ فٹبال، کرکٹ، ہاکی، دیسی کشتی ، والی بال کراٹے اور باکسنگ میں وہ بے حد دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کی سرپرستی کی جائے تو ملکی اور عالمی سطح پر ان کا اچھا ٹیلنٹ سامنے آ سکتا ہے۔ مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب کھیلوں کے میدان آباد ہوں۔ نوجوانوں کو سرکاری اداروں، سکولوں اور کالجوں میں ہر ممکن سہولتیں دی جائیں۔ اس وقت عالمی سطح پر بلوچستان کے شاہ زیب رند کا نام   گونج رہا ہے کراٹے کے میدانوں میں ان کی دھوم مچی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘۔
 اس لیے حکومت بلوچستان کھیلوں کے فروغ پر خصوصی توجہ دے۔ اس طرح صوبے کے نوجوانوں میں یاسیت کی جگہ امید کی فضا پیدا ہو گی اور وہ مثبت کاموں میں مشغول ہوں گے۔ 
جناح کے بعد جنرل ہسپتال سے بھی جعلی ڈاکٹر پکڑا گیا۔
اس سے ہی ہماری گڈ گورننس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پہلے ہی ہسپتال کسی بس اور ویگن اڈے کی طرح معلوم ہوتے ہیں جہاں ہر وقت رش لگا رہتا ہے۔ ایک بیمار کے ساتھ درجنوں تیمار دار جمگھٹا لگائے نظر آتے ہیں جس طرح اڈوں اور ریلوے سٹیشنوں ہی نہیں ہوائی اڈوں پر مسافوں کو الوداع کہنے کے لیے پورا گھر حتیٰ کہ پورا خاندان آیا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے رش لگ جاتا ہے اور بدمزگی پیدا ہوتی ہے۔ کسی کو روکیں تو نوبت ہاتھا پائی تک آ جاتی ہے۔ اس صورتحال میں دو نمبری کرنے والوں کو بھی موقع مل جاتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں ہسپتالوں میں بھی چور اب ڈاکٹروں کا روپ دھار کر وارداتیں کرتے پھرتے ہیں۔ اسی طرح نرسوں کی وردی میں یا وارڈ بوائے کی شکل میں جرائم پیشہ افراد وارداتیں کرتے ہیں۔ چوری چکاری کے علاوہ نومولود بچوں کا اغوا انہی لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اب پہلے جناح ہسپتال کے وارڈز میں مریضوں کی قیمتی اشیاء چوری کرنے والا جعلی ڈاکٹر پکڑا گیا۔ اب جنرل ہسپتال میں بھی ایک عدد اور ملزم رنگے ہاتھوں یعنی مختلف وارڈز کا وزٹ کرتے ہوئے قابو میں آیا۔ اب یہ معلوم کرنا باقی ہے کہ موصوف ڈاکٹروں والی وردی پہن کر کیا کرتا رہا ہے۔ بات صرف وارڈ بوائے اور لفٹ آپریٹر سے یا سکیورٹی و صفائی کرنے والے عملے سے مریضوں کو انجکشن لگانے ادویات دینے تک یا ان سے آپریشن تھیٹر میں کام لینے تک محدود رہتی تو صبر آ جاتا کہ چلو یہ لوگ ہسپتال میں کام کرتے کرتے تھوڑا بہت کام جان گئے ہوں گے مگر یہ مکمل جعلی ڈاکٹر تو ’’نیم حکیم خطرہ جاں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے اب ہسپتالوں میں ایک مریض اور ایک تیمار دار کی پالیسی پر سختی سے عمل کرنا ہو گا تاکہ رش کی آڑ میں دو نمبری کرنے والوں کا عمل دخل ختم ہو۔ 
گجرات میں پولیس سٹیشن پر خواجہ سرائوں کا حملہ، 9 گرفتار
یہ تو بڑے شرم کی بات ہے کہ پولیس والوں کو ان کے تھانے میں یعنی محفوظ قلعے میں جہاں ان کی مرضی کے بغیر پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا تالیاں بجاتے ٹھمکے لگاتے ہوئے خواجہ سرائوں کے جتھے نے پکڑ کر باہر نکالا۔ صرف یہی نہیں وہاں کے فرنیچر تک کو تھانے سے نکال کر سڑک پر لا پھینکا۔ یہ تماشہ وہاں موجود سینکڑوں تماشبیوں نے دیکھا سو دیکھا سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پورے ملک نے دیکھا۔ بس پھر کیا تھا جتنے منہ اتنی باتیں طرح طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے خیال میں  تو
جن سیاپنا تھانہ  نہ  بچایا جائے 
ان سے کیا خاک لوگوں کی حفاظت ہو گی۔
اب بھلا ایسے محافظوں پر کون اعتبار کرے گا کہ وہ ان کے گھروں کی حفاظت کریں۔ بے شک ساری پولیس ایسی نہیں ہے۔ اب کے پولیس نے بھی نجانے ان خواجہ سرائوں کے ساتھ کیا سلوک برتاؤ کیا ہو گا کہ یہ پرامن برادری بھی سیخ پا ہو کر تھانے پر ٹوٹ پڑی۔ ایسا تو باراتی شادیوں میں کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور کسی کے ہاتھ بوٹی آتی ہے کسی کے ہاتھ روٹی۔ کوئی بے چارہ سادہ چاولوں پر ہی گزارہ کرتا ہے۔ اب نو عدد خواجہ سرا چنگیزی لشکر بننے کے جرم میں پس زنداں یعنی حوالات کی سیر کر رہے ہیں۔ اب وہاں بھی انہوں نے جنگل میں منگل والا ماحول بنایا ہو گا۔ یا رو رو کر آسمان سر پر اٹھایا ہو گا۔ یہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا ایک مظلوم طبقہ ہیں اس لیے ان کی بددعا نہیں لینی چاہیے۔ ان کے مسئلے کا حل نکال کر انہیں چھوڑ دیا جائے یا ان پر ایک ماہ شادیوں میں مفت پرفارمنس کا جرمانہ کیا جائے تاکہ وہ آئندہ ایسی جنگجوانہ سرگرمیوں سے باز رہیں۔

ای پیپر-دی نیشن