سانحہ 9 مئی: جوڈیشل کمیشن یا ٹرتھ کمیشن؟
سانحہ 9 مئی کوئی راکٹ سائنس نہیں جس کو سمجھنے، ذمہ داری کے تعین، پس پردہ محرکات اور ماسٹر مائنڈ تلاش کرنے کے لیے کسی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی ضرورت ہو۔ یہ کوئی خفیہ سازش یا راز بھی نہیں جس کی کھوج لگائی جائے۔ یہ اظہر من الشمس واقعات کا تسلسل ہے جس کی کڑیاں 2014ء کے دھرنے سے لے کر اب تک ایک دوسرے کے ساتھ ملتی سامنے نظر آ رہی ہیں۔ اسے سانحہ کہیں یا ایک فسطائیت پر مبنی سوچ کا شاخسانہ، جس کا شکار ایک طرف تو ہمارے عسکری ادارے، ان کی قیادت اور تنصیبات ہوئیں اور سوشل و الیکٹرانک میڈیا ان قومی اداروں کی جو تضحیک کی گئی اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں۔ فوجی حکومتوں کے دوران سیاسی قیادت و کارکنوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے گئے ہیں یہاں تک کہ ایک قومی لیڈر کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ایک قومی لیڈر اور سینکڑوں ساتھیوں کو قتل کروا دیا گیا۔ دو تہائی اکثریت والے لیڈر کو ایک بار نہیں تین بار اقتدار غیر آئینی و غیر قانونی طریقے سے حکومت سے الگ کردیا گیا لیکن یہ ردعمل نہیں آیا جو ایک آئینی عمل کے ذریعے عدم اعتماد سے الگ ہونے پر دیکھنے کو ملا۔
دوسری طرف، پی ٹی آئی کے وہ غریب اور ذہنی مریض خواتین اور جوانان جو اپنی قیادت کے سحر میں اس قدر گرفتار اور محبوس ہوچکے ہیں کہ ان کو اپنی قیادت و اپنے سوا سب چور و ڈاکو نظر آتے ہیں۔ انھیں قومی حمیت کا ادراک ہے نہ ملکی اقتصادیات اور معاشیات کی فکر۔ 9 مئی کے نتیجے میں تحریک انصاف کے وہ غریب اور خواتین کارکنان جو متوسط درجے سے تعلق رکھتے ہیں کیا جیلوں میں ان کی بھی کسی نے خبر گیری کی ہے؟ ان کو تو زمان پارک میں بھی اور جیلوں میں بھی حفاظتی باڑ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اگر ہم 10 اپریل 2022ء سے لے کر 9 مئی 2023 تک بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے متعلق واقعات اور سرگرمیوں کا اجمالی سا جائزہ لیں اور گزشتہ اخبارات اور مختلف ٹی وی ٹاک شوز کو ریوائنڈ کریں تو سب حقیقت ایک فلم کی طرح آشکار ہو جاتی ہے۔
9 مئی 2023ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے عمران خان کی گرفتاری سے قبل زمان پارک لاہور میں گرفتاری سے بچنے کے لیے جس طرح کی حصار بندی اور حفاظتی پشتے قائم کیے گئے تھے اور لاء انفورسمنٹ ایجنسیوں کے اہلکاروں پر پٹرول کریکر اور غلیلوں کا استعمال ہوتا رہا اور عدالتوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے جس طرح کی جتھا بندی جلوس گردی تاخیر سے عدالتوں میں حاضری کا سلسلہ چلتا رہا، ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کی عدالتوں سے بھی جو وی آئی پی پروٹوکول اور Love to see you کے استقبالیہ کلمات تحسین ادا ہوتے رہے وہ کب کسی سے پوشیدہ ہیں جو اس کے لیے کسی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی جائے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں جوڈیشل کمیشنز کی ماضی کی جو تاریخ ہے وہ بھی سب کو پتا ہے کہ ان کمیشنز یا انکوائریز نے کب کسی کو سزا یا جزا سے نوازا ہے۔ اگر ان کمیشنز و تفتیشوں کا سرسری جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں جو معروف کمیشن بنے ان میں سے کسی کی رپورٹ سامنے آئی نہ کوئی مثبت و مطلوبہ کارروائی دیکھنے کو ملی۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ پاکستان کے فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عمل درآمد بارے قائم حالیہ کمیشن جس کا نوٹس سپریم کورٹ نے اس وقت بھی لے رکھا ہے۔ ایسے کمیشن وقت اور سرکاری وسائل کے ضیاع اور اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لیے ہوتے ہیں۔
تحریک انصاف کے قائدین، ان کے حاشیہ بردار پارلیمنٹیرینز، وکلا، صحافی و سادہ لوح کارکنان تسلسل سے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ بھی اسی لیے کر رہے ہیں کہ وقت ضائع ہو۔ اصل مسئلہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں تعطل اور توجہ ہٹانے کا ہے۔ بالکل بجا کہا ہے ڈاریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے کہ اگر جوڈیشل کمیشن بنانا ہے تو وہ ان تمام واقعات اور سرگرمیوں کا احاطہ کرے جو 2014ء کے دھرنے سے شروع ہوئیں اور اب تک تسلسل سے جاری ہیں۔ جن میں دھرنے، پارلیمنٹ، ٹی وی سٹیشن، وزیراعظم ہاؤس پر حملوں، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے لگے جنگلوں پر گندے کپڑے لٹکانے سے دوست اور سٹریٹجک پارٹنر ممالک کے صدور کے دوروں میں رکاوٹ، دوست ممالک بالخصوص سعودی عرب جیسے ہمدرد ملک کے خلاف جھوٹ الزامات اور دیگر ممالک سے سفارتی تعلقات خراب کرنے تک سے لے کر آئی ایم ایف سے قرضے نہ دینے کے خطوط اور ان کے پیچھے تھپکی دینے والوں تک تحقیقات کرے۔
ہمارے خیال میں پاکستان میں ایک ٹروتھ کمیشن بنائے جانے کی ضرورت ہے جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان میں سیاسی و معاشی عدم استحکام کا جائزہ لے ذمہ داران کی سزا یابی تو شاید مشکل اور ناممکن عمل ہو لیکن سب صدق دل سے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے معافی اور آئندہ سے محتاط رہنے کا قومی سطح پر اعتراف ندامت یا اعتراف حقیقت کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 9 مئی کے واقعات پر کہیں غفلت مجرمانہ کا ارتکاب بھی کیا گیا اور عدالتوں اور پراسیکیوٹرز یعنی ریاست و ریاستی اداروں کی جانب سے تساہل بھی برتا گیا، ایک سال گزر گیا لیکن نہ کوئی کیفر کردار تک پہنچا نہ الزامات سے مبرا و منزہ ہو سکا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف تنہا ان واقعات کی ذمہ دار نہیں بلکہ اس کی پشت پناہی کرنے والے بھی پارلیمنٹ، انتظامیہ، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ الغرض ہر طبقہ فکر و عمل میں موجود ہیں جنھوں نے معاشرے کو پراگندہ اور تقسیم کر رکھا ہے کوئی شعبہ زندگی ہی نہیں ہر گھر ہر یونٹ میں اس قدر تقسیم و تفریق پیدا کردی گئی ہے کہ ہمارا اتحاد و یکجہتی ہی نہیں ہماری حمیت و وقار بھی انفرادی و قومی سطح پر ختم ہو کر رہ گیا ہے۔