ایرانی صدر کا دورہ اور چندا ماموں کو سلام
’’ابراہیم رئیسی اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دنوں میں پاکستان آگئے۔ کیا یہ حیران کن نہیں ہے؟۔ یہ دورہ ایران کے لیے ضروری بلکہ ان کی مجبوری تھا۔ اس کے سوا کوئی چارہ کار تھا ہی نہیں۔ کساد بازاری، بیروزگاری پاکستان ہی کا نہیں، عالمی مسئلہ بھی ہے۔ پاکستان میں اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے، دیگروجوہات بھی ضرور ہیں۔ بھارت کاچندریان چاند کی جانب روانہ ہوا تو ہم پاکستانی شرمندہ ہو رہے تھے کہ ایٹم بنانے والا اسلامی دنیا کا واحد ملک چندریان جیسا سیٹلائیٹ نہ بنا سکا۔ جب آئی کیوب قمر زمین سے چاند کی طرف جانے کے لیے روانہ ہوا تو ہمارا سر فخر سے بلند سینہ مسرت و انبساط سے چوڑا ہو گیا۔ آج پاکستان چاند پر اترا تو بھارت سے تعلق رکھنے والے دوست جن میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی شامل ہیں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مبارکبادیں دے رہے ہیں‘‘۔
یہ گفتگو پاکستان سے ہزاروں میل دور کینیڈا میں مقیم مطلوب وڑائچ کر رہے تھے۔مطلوب وڑائچ کی زندگی کا زیادہ حصہ یورپ میں گزرا ہے۔ یورپ میں ان کے ریسٹورنٹس کی ایک چین تھی جس کا مرکز سوئٹزرلینڈ تھا۔ یہ پیپلز پارٹی اوورسیز یوتھ ونگ کے صدر رہے۔ بے نظیر بھٹو کے قریب رہے۔ آصف زرداری کے دوست جو انہیں بھائی سمجھتے تھے۔ سوئٹزر لینڈمیں چلنے والے، بے نظیر بھٹو اور زرداری پر مقدمات میں ان کو پاور آف اٹارنی دی گئی تھی۔ پاکستان سے بے نظیر بھٹو آصف زرداری جاتے تو ان کے مہمان ہوا کرتے تھے۔ فاروق ایچ نائیک اور دیگر وکلا کیسز کی پیروی کیلئے جاتے وہ وہیں ان کے ہاں ٹھہرتے۔
پاکستان سے بہت دور بیٹھ کر بھی ان کی سیاسی معاشی اور دیگر احوال پرنظر ہوتی ہے۔ درجن بھر کتابیں لکھ چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں یورپ اورسنٹرل ایشیا کے دورے پر تھے۔ سوئٹزر لینڈکے بعد آذربائیجان ازبکستان روس گئے۔ تاشفند سمر قند بخارا کی سیاحت کی۔ نوائے وقت کے مستقل کالم نگار ہیں۔ان سے گزشتہ روز بات ہوئی۔
ایرانی صدر کے دورے سے متعلق انہوں نے جو بتایا حیران کن تھا مگر جنگ کے دوران ابراہیم رئیسی کا کسی بھی غیر ملکی دورے پر جانا واقعی سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ جب کہا کہ اس دورے کے سوا ایران کے پاس کوئی چارہ تھا ہی نہیں۔ اس پر میں نے حیرانی سے ’’ہیں؟‘‘ کہا تو انہوں نے جو بتایا وہ قابلِ غور ہے۔
اگست 1965ء میں ہونیوالا آپریشن جبرالٹر پاکستان بھارت تعلقات میں کشیدگی کی انتہا کا مظہر ہے۔ اس سے قبل دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں خرابی کا آغاز ہو چکا تھا۔ صدر ایوب خان کو اندیشہ تھا کہ معاملات جنگ کی طرف جا سکتے ہیں۔ ایوب خان کو شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی بھارتی لیڈروں سے رابطوں اور تعلقات کا علم تھا۔مئی 1964ء میں انتقال کر جانے والے وزیراعظم جواہر لال نہروکی شہنشاہ ایران سے گہری دوستی تھی۔ ایوب خان کو خدشہ تھا کہ جنگ ہوئی تو ایران بھارت کا ساتھ دے گا۔ ایوب خان ہر صورت ایران کو ممکنہ جنگ سے الگ رکھناچاہتے تھے۔ اس مقصدکے لیے ذوالفقار بھٹو کو بروئے کار لایا گیا۔ وہ نصرت بھٹو سے شادی کی باعث بھی ایران سے قریب تھے۔ بھٹو صاحب کو ایران بھیجا گیا۔ انہوں نے ممکنہ جنگ کی صورت میں پاکستان کا ساتھ دینے کی درخواست کی۔ شہنشاہ ایران نے کہا یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، ہماری دو شرائط ہیں۔ فطری طور پر بھٹو نے فوراً کہا ’’جو شرائط ہیں بتایئے‘‘۔ شہنشاہ نے پہلی شرط یہ بتائی کہ پاکستان اور ایران کے مابین متنازعہ سرحدی علاقے ہمارے حوالے کر دیئے جائیں(ان علاقوں میں تانبے کی کانیں ہیں)۔
’’دوسری کیا شرط ہے‘‘۔ بادشاہ نے اپنی بات کے دوران توقف کیا تو بھٹو نیپوچھا۔ ’’پاکستان ایران کی سرحد کے ساتھ دو سو میل تک تیل کیلئیکنویں نہیں کھودے گا‘‘۔ بھٹو نے صدر ایوب خان تک یہ شرائط پہنچائیں تو ان کی طرف سے جواب ہاں میں تھا۔یوں ایران اور پاکستان کے مابین معاہدہ طے پا گیا جو تیس سال کے لیے تھا۔65 میں جنگ ہوئی تو ایران کی طرف سے مبینہ معاہدے کے مطابق کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا گیا۔ یہ تیس سال ختم ہوئے تو1995ء میں بے نظیر بھٹو کے دور میں ایرانی صدر معاہدے کی تجدید کے لیے پاکستان آئے تھے۔ اب دوسرے تیس سال مکمل ہونے پر تیسرے تیس سال کے معاہدے کی تجدید اور توثیق کے لیئے ابراہیم رئیسی حالت جنگ کے باوجود پاکستان آئے۔
تیل ایران کی لائف لائن ہے۔ 46سال سے ایران عالمی پابندیوں کی زد میں ہے۔ اس نے اگر سروائیو کیا ہے تو پٹرولیم کے باعث کیا ہے۔ چین، بھارت اور دیگر کئی ممالک ایران سے امریکی پابندیوں کے باوجود تیل درآمد کرتے ہیں۔ ایران سب کچھ برداشت کرتا ہے لیکن اپنی لائف لائن سے کسی صورت تہی نہیں ہونا چاہتا۔ مطلوب وڑائچ کی مذکورہ معلومات کتنی معتبر اور مستندہیں؟۔ ان کا دعویٰ ہے کہ میں ایک ایک لفظ کسی بھی عالمی فورم پر حتیٰ کہ عدالت میں ثابت کر سکتا ہوں۔ اپنے متعدد کالموں میں وہ پاکستان کی عدلیہ کو پیشکش کر چکے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں تک پہنچنے کے لیے انہیں عدالت میں طلب کیا جائے۔ یہ الگ موضوع اور ایشو ہے۔ ایرانی صدر نے واقعی اسی مقصد کے لیے پاکستان کا دورہ کیا ؟ یہ اوپن ڈیبیٹ ہے۔ اس پر معلومات رکھنے والے روشنی ڈال سکتے ہیں۔
پاکستان کی طرح عالمی سطح پر بھی معیشتیں کرونا کے بعد بحال نہیں ہو سکیں۔ یورپ اور سنٹرل ایشیاء کے ممالک میں بھی مہنگائی اور بے روزگاری اس کے باوجود موجود ہے کہ گھر کا ہر فرد جو جوانی میں قدم رکھتا ہے بر سرِ روزگار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں ایک کمانے والا تو اوسطاً پانچ چھ کھانے والے ہوتے ہیں۔ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ یہ معاشی بد حالی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
چندا ماموں کو سلام ،پاکستان کا سیٹلائیٹ آئی کیوب قمر چین کے توسط سے چاند پر گیا۔ اس پر پاکستان کے اندر بھی کچھ لوگوں نے مذاق اڑایا۔ پاکستان ایٹم بم بنانے جیسا ناقابل یقین سنگ میل عبور کر سکتا ہے تو چاند پر سیٹلائیٹ پہنچانا چنداں مشکل نہیں تھا۔ مگر زمانہ کی رفتار ، مزاج، ماحول اور رویوں کو دیکھنا ہوتا ہے۔ آپ دل و جان سے کتنے دوست ہیں؟ پاکستان سیٹلائیٹ ضرور بنا لیتا اور شاید بنا بھی چکا ہو۔ قرض میں جکڑے پاکستان کی معیشت قرض پر ہی چل رہی ہے۔ ادھرآپ کا سٹیلائیٹ فضاؤں کا سینہ چیرتا خلاؤں میں داخل ہوتا ادھر قرض خواہ ادھم مچا دیتے۔ اسی کام اور مقصد کے لیے قرض لیا تھا؟ پاکستان ہی نہیں عالم اسلام کا بھی پہلا سیٹلائیٹ خلا میں چلا گیا کسی کو انگلی اٹھانے اور آنکھیں دکھانے کا موقع نہیں ملا اور پاکستان عالم اسلام کا پہلا سیٹلائٹ چاند پر پہنچانے والا ملک بھی بن گیا۔