جمعۃ المبارک‘ 1445ھ ‘ 10 مئی 2024ء
شیخ رشید کی تندور پر نان لگانے والی ویڈیو اور تصویر وائرل
کافی عرصہ بعد میڈیا پر راولپنڈی کے شیخ رشید کو وسطیٰ ایشیاء کے کسی ملک کے تندور پر روٹی لگاتے دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ ابھی ان کی حالت ایسی بھی گئی گزری نہیں کہ وہ نان کی دکان پر کام کریں خواہ وہ کوئی غیر ملک ہی کیوں نہ ہو۔ خیر سے وہ ایک بڑے فارم ہائوس اور لال حویلی کے مالک ہیں۔ ذرائع آمدنی وافر ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو راولپنڈی میں ہی نان شاپ کھول کر صرف کرسی لگا کر وہاں بیٹھ کر کافی آمدنی کما سکتے ہیں۔ لگتا ہے بشکیک میں وہ وہاں کے روایتی نان لگانے کے طریقہ سے بہت متاثر ہوئے اور اپنے لیے خود انہوں نے نان لگایا اور پیسے ادا کر کے ہنسی خوشی نان لے کر روانہ ہوئے اب وہاں کے دکاندار کو کیا معلوم کہ حضرت کون ہیں۔ ورنہ تحفے میں وہ یہ نان فری میں دے دیتا۔ بہرحال تصویر اور ویڈیو بڑی زبردست بنائی گئی ہے۔ شیخ جی اس میں کافی خوش اور صحت مند لگ رہے ہیں۔
یادش بخیر شیخ رشید تو غالباً اندر تھے یعنی فی الحال پولیس کے پاس تو پھر یہ تصویر اور ویڈیو کیا فیک ہے۔ کہیں اندر خانے وہ مک مکا کر کے ’’یا شیخ اپنی اپنی دیکھ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے عزت الشیوخ بچا کر غیر ملکی سیر و تفریح پر تو روانہ نہیں ہو گئے۔ اس طرح تو اڈیالہ کے قیدی کو بہت دکھ ہو گا کہ اسے ہلہ شیری دینے والے خود کیسے خاموشی سے نکل گئے ہیں اور ان کے وکیل ان کو صرف دلاسے دے رہے ہیں کہ وہ جلد باہر ہوں گے۔
٭٭٭٭٭
پاکستان میں عرصہ بعد ناپید سفید ہمالیائی گدھ نظر آیا۔
یہ جانور جو زمین کو مردار جانوروں یعنی مرے ہوئے جانوروں سے پاک رکھتا ہے۔ ایک قدرتی والینٹر ہے۔ صفائی ورکر ہے جو مردہ جانوروں کی وجہ سے پھیلنے والی آلودگی اور جراثیم اور بدبو سے زمیں کو پاک رکھتا ہے۔ پاکستان میں جب انسانوں کی آبادی بے ہنگم طریقے سے پھیلنے لگی تو ان کے ٹھکانے بھی زد میں آئے اور یہ بے گھر ہو کر آس پاس کے ممالک میں ہجرت کر گئے۔ سندھ میں البتہ کچھ کالے گدھ صحرا میں منڈلاتے نظر آتے ہیں جن کی بڑی تعداد بھی چند سالوں میں نامعلوم بیماری کی وجہ سے مر گئی ہے۔ اب پہاڑی علاقوں میں ایک بار پھر سفید رنگ والا یہ ہمالیائی گدھ نظر آیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تعداد میں معقول اضافہ ہوا ہو گا کہ وہ رزق کی تلاش میں پاکستان آیا ہے۔ ہمالیہ کا کچھ حصہ پاکستان میں بھی ہے۔ یہاں ان کے محفوظ ٹھکانے بنائے جا سکتے ہیں۔ مگر یہ کام محکمہ وائلڈ لائف کیوں کرے۔ شاید محکمے والوں کو بھی معلوم ہے کہ ملک میں ہر جگہ مردار خور کہہ لیں یا حرام خور گدھ منڈلاتے نظر آتے ہیں جو انسانوں کی شکل میں ہیں تو پھر ان جانوروں کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں اب جنگلی حیات رہ ہی کتنی گئی ہے۔ جنگل ناپید ہونے سے یہ اِدھر اْدھر چلے گئے۔ ہم نے زمین سے اس کی خوبصورتی چھین لی ہے۔ اب کبھی کبھار پہاڑی علاقوں میں ریچھ چیتے یا تیندوے نظر آتے ہیں تو لوگ انہیں بے دردی سے مار دیتے ہیں۔ اگر محکمہ تحفظ جنگلی حیات کہیں موجود ہوتا تو لوگ انہیں اطلاع دیتے جو آ کر انہیں حفاظت کے ساتھ لے جا کر محفوظ علاقے میں چھوڑ آتے۔ پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں ایسا کوئی رواج نہیں۔ ہم انسانی شکل والے درندوں کو چھوڑ کر ہر جنگلی جانور کو درندہ قرار دے کر مارنے کے درپے رہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
جج کی مسلسل توہین عدالت پر ٹرمپ کو جیل بھیجنے کی وارننگ۔
امریکی تاریخ میں بے شمار ایسے صدور گزرے ہیں جنہیں یاد رکھا جائے گا۔ اچھے کاموں کے لیے بھی غلط کاموں کے لیے بھی۔ کچھ صدور کے حصے میں تعریف آئے گی اور کچھ کے حصے میں مذمت۔ مگر ان میں سب سے زیادہ حیران کن ردعمل سابق صدر ٹرمپ کے حوالے سے ہو گا۔ کوئی اسے فنی اداکار، کوئی جنونی، کوئی مسخرہ اور کوئی رعب دار شخصیت قرار دے گا۔ وہ ایک فلمی ہیرو کی طرح ہر طرح کا ایکشن کر گزرتے ہیں۔ انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کا اثر کیا ہو گا۔ وہ مکمل طور پر غالب کے شعر
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا
کی عملی تصویر نظر آتے ہیں۔ اب جس عدالت میں ان کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔ اس کے جج نے مسلسل دسویں بار جی ہاں دسویں بار توہین عدالت کرنے پر انہیں جیل بھیجنے کی سخت وارننگ دی اور ساتھ ہی ایک ہزار ڈالر جرمانہ عائد کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ اگر عدالت کی توہین کی تو انہیں جیل بھیج دیا جائے گا۔ اب دیکھتے ہیں اس کا ٹرمپ پر کیا اثر ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اس حوالے سے ہمارے سیاستدانوں سے متاثر لگتے ہیں جنہیں عدالت کے خلاف بولنے کا چسکا لگا ہوا ہے۔ مگر یاد رہے وہ امریکہ ہے پاکستان نہیں۔ وہاں جنونیوں کو فوری طور پر سخت سزا دی جاتی ہے۔ جن لوگوں نے ٹرمپ کی خاطر کپیٹل ہل پر حملہ کیا تھا وہ سب آج جیلوں میں بیٹھے سزا بھگت رہے ہیں۔ ہمارے ہاں فی الحال اتنا برق رفتار نظام انصاف موجود نہیں ہے۔ ایسے مقدمات کے ملزمان ضمانتوں پر یا ویسے ہی پکڑے نہ جانے پر آزاد گھومتے ہیں۔ اوربڑھکیں لگانے سے باز نہیں آتے۔
٭٭٭٭٭
کراچی میٹرک کے امتحانات شروع۔ نقل عروج پر۔ پیپر سے پہلے حل شدہ پرچہ سوشل میڈیا پر آ گیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں طالب علموں سے محبت کرنے والے لوگ ابھی زندہ ہیں جو ان بے چاروں کی بھرپور مدد کرنے کے لیے پرچے سے قبل ہی حل شدہ پرچے آئوٹ کر دیتے ہیں کہ پڑھائی سے جی چرانے والے بچے بھی کوشش کر کے پرچے میں پاس ہوں۔ کراچی میں گزشتہ روز میٹرک کے امتحانات بڑے چائوکے ساتھ محکمہ تعلیم کے بلند و بانگ دعوئوں کی روشنی میں شروع ہوئے۔ پہلا پرچہ کمپیوٹر سٹڈیز کا تھا جو پرچہ شروع ہونے سے آدھ گھنٹہ قبل ہی سوشل میڈیا پر گردش کر رہا تھا تاکہ طلبہ اس سے مستفید ہوں۔ اب یہ کارروائی اس نقل کی کارروائی سے بھی بڑی واردات تھی جو ہمارے امتحانات کا عام حصہ بن چکی ہے۔ ایسا کونسا طریقہ نہیں جو نقل مافیا استعمال نہیں کرتا۔ مگر یوں سوشل میڈیا پر حل شدہ پرچہ آئوٹ کرنا بہرحال بڑے دل والے مافیا کا کام ہے جس کی داد اب محکمہ تعلیم والوں نے دینی ہے۔ دیکھتے ہیں وہ کیا کہتے ہیں۔ اس واردات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نظام تعلیم کو تباہ کرنے والے عناصر بہت طاقتور ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ بچوں میں علم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو اور وہ کچھ بن کر دکھائیں۔
یہ تو شہر کا حال ہے۔ دوسرے دیہی علاقوں میں کیا ہو رہا ہو گا جہاں نقل مافیا براہ راست امتحانی مراکز کو قبضے میں لے لیتا ہے دھڑلے سے نقل ہوتی ہے نگران عملہ اور پولیس والے خاموش تماشائی بن کر تعلیم کی بربادی کا یہ جشن دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ مگر کیا کریں کہ بااثر مافیا کے آگے سب بے بس ہیں۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں تو غنڈہ گردی عروج پر ہوتی ہے اور وہ طالب علم جو حقیقت میں پڑھتے ہیں منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ نقل مافیا کس طرح ان کے حق پر ڈاکا ڈالتا ہے مگر ان کو کوئی نہیں روکتا۔بس شور مچاتے ہیں کہ تعلیم کامعیار گر گیا ہے۔علاج کوئی نہیں کرتا۔۔۔
٭٭٭٭٭