احتجاجی وکلاء پر پولیس تشدد اور گرفتاریاں
ایوان عدل میں واقع سول کورٹس کی ماڈل ٹائون کچہری میں منتقلی اور وکلاء کیخلاف دہشت گردی دفعات پر مشتمل درج مقدمات کیخلاف لاہور بار ایسوسی ایشن کی جانب سے گذشتہ روز ریلی نکالی گئی، وکلاء لاہور ہائیکورٹ پہنچے اور عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی، لاہور مال روڈ، جی پی او چوک پولیس اور احتجاجی وکلاء کے درمیان تصادم کے نتیجے میں میدان جنگ بن گیا۔ پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے شیل برسائے، پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے واٹرکینن کا بھی استعمال کیا گیا۔ وکلاء نے جی پی او چوک اور ہائیکورٹ کے باہر لگے بیریئرز ہٹا دیئے اورپولیس پر شدید پتھرائو کیا جس کے نتیجے میں ایس پی ماڈل ٹائون سمیت متعدد اہلکار زخمی ہو گئے۔پولیس نے کئی وکلاء کو گرفتار کرلیا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل، پنجاب بار کونسل ، لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور بار ایسوسی ایشن کی طرف سے 9 مئی کو ملک بھر میں ہڑتال اور احتجاج کی کال دیکر شدید احتجاج کیا گیا۔
اس سے قبل اپنے حق کیلئے سڑکوں پر نکلنے والے کسانوں پر پولیس کی جانب سے بدترین تشدد کیا گیا‘ شیلنگ کی گئی اور انہیں گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا۔ اب وکلاء برادری پر پولیس گردی کا واقعہ سامنے آگیا ہے جو افسوسناک ہے۔ پولیس تشدد کے واقعات حکومتی گورننس کی اچھی عکاسی نہیں کرتے۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونیوالے تصادم سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں اتفراتفری اور انتشار والے حالات جان بوجھ کر پیداکئے جا رہے ہیں تاکہ ملک دشمن عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع مل سکے۔ اگرانتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کے مطالبات پر پہلے ہی بات چیت کا اہتمام کرلیا جائے تو تصادم کی نوبت ہی نہ آئے۔ جس طرح حکومت نے کسانوں کے ساتھ بات کی اور گندم کے مناسب نرخ مقرر کرکے انہیں مطمئن کیا‘ اسی طرح وکلاء برادری کے ساتھ بھی بات چیت کا راستہ نکالنا چاہیے تاکہ کسی بڑے تصادم سے بچا جا سکے۔ حکومت کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ وزیراعظم شہبازشریف بیرونی سرمایہ کاری کیلئے ملک میں امن و امان سمیت سازگار ماحول فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہیں‘ ملک بھر کی وکلاء برادری کی جانب سے شدید احتجاج کا سلسلہ انکی ایسی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔