ماحولیاتی تبدیلی۔۔۔ایک سنگین مسئلہ
حضرت انسان نے اس جدید دور میں خلاو¿ں کو تسخیر کیا اور اب اس کی نظر ستاروں پر ہے مگر اس وقت اسے جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ ہے کرہ ارض کو ماحولیاتی تغیر اور موسمیاتی تبدیلی کا۔ ماحولیاتی تبدیلی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کو اس چیلنج کا سامنا ہے۔ اس میں کس کا کتنا ہاتھ ہے اس بحث میں پڑے بغیر یہ بات تو طے ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے ہر ایک نے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ یوں تو پوری دنیا اس سے متاثر ہو رہی ہے تاہم پاکستان اس سے بری طرح متاثر ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہے حالانکہ ماحولیاتی تغیر کا سبب بننے والی کاربن گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد بھی نہیں۔ماحولیاتی تغیر کی وجہ سے درجہ حرارت ناقابل برداشت حد تک بڑھ رہا ہے۔ اس سال دیکھا جائے تو ملک میں گزشتہ ماہ بے موسمی بارشیں اور ان دنوں میں اچانک ہیٹ ویو دراصل ماحولیاتی تغیر کا ہی شاخسانہ ہے۔ ماحولیاتی تغیر سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ چرند، پرند، حیوان اور نباتات سب متاثر ہو رہے ہیں اور یہ زندگی کے تمام شعبوں زراعت ہو یا صحت۔ تعلیم ہو یا کوئی بھی شعبہ۔ سب کی کارکردگی پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ معیشت کو بھی اس وقت سب سے بڑا خطرہ ماحولیاتی تغیر سے ہی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ ماحولیاتی تغیر ہی ہے جس سے پاکستان میں 2022ءکے بدترین سیلاب سے معیشت کو 30 ارب ڈالر کا دھچکا برداشت کرنا پڑا ، بےشمار لوگ بے گھر ہوئے۔
مسئلے کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے تدارک کے لیے اقدامات وقت کا تقاضہ ہے کیونکہ مستقبل میں زراعت پر اس کے اثرات سے غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی سے دنیا کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پانی کی کمی کا بھی مسئلہ درپیش رہے گا۔ مویشیوں کی پیداواری صلاحیت کم ہوگی۔ وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ بھی ہوگا۔ بہت سے پرندے معدوم ہو جائیں گے، جس سے کائنات کا توازن برقرار نہیں رہے گا۔ لوگوں کا رہن سہن متاثر ہوگا۔
پاکستان ماحولیاتی تحفظ پر بھرپور یقین رکھتا ہے اور اس سلسلے میں اب تک بے شمار ایسے اقدامات کیے جا چکے ہیں جو ماحولیاتی تغیر پر قابو پانے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ پلاسٹک بیگز کی حوصلہ شکنی، صنعتی فضلے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا ، کوڑا کرکٹ کو جلانے پر پابندی، بھٹوں میں زگ زیگ ٹیکنالوجی کا استعمال اور سب سے بڑھ کر جنگلات کی حوصلہ افزائی کے لیے سال میں متعدد بار شجرکاری مہم۔۔۔۔۔ان اقدامات نے پاکستان کو اقوام عالم میں ماحول دوست ملک کے طور پر متعارف کرایا ہے۔
پنجاب حکومت بھی اس سلسلے میں اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کر رہی ہے اور ماحول کی بہتری کے لیے وزیراعلی مریم نواز کے وڑن پر عمل درامد کے لیے لیگل فریم ورک بنانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ ہر شعبے کے لحاظ سے قوانین اور ضابطوں پر عمل درامد کے لیے ہنگامی اقدامات کا ایکشن پلان تیار کیا جا رہا ہے کون سا شعبہ کتنے فیصد ماحول کی خرابی کا باعث بن رہا ہے اس کا ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے تاکہ موثر اقدامات کیے جا سکیں۔ صوبے میں ماحولیاتی تحفظ اتھارٹی کا قیام، ماحولیاتی تحفظ کے لیے خصوصی ٹاسک فورس کا قیام اور اس بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے نصاب میں مضامین شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ماحولیاتی تحفظ کے لیے سرکاری سطح پر کوششیں اپنی جگہ مگر اس مسئلے کے ادراک اور حل کے لیے گلوبل نیبرہڈ فار میڈیا انوویشن GNMI کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ ملک بھر میں صحافیوں کے لیے خصوصی طور پر ماحولیاتی تغیر کے حوالے سے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد اس حقیقت کا غماز ہے کہ اس تنظیم کی جانب سے کی جانے والی کوششیں بارآور ثابت ہوں گی کیونکہ صحافی معاشرے کی اصلاح اور شعور اجاگر کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب صحافیوں کو آگاہی ملے گی تو وہ بہتر انداز سے لوگوں کے سامنے یہ مسئلہ رکھیں گے۔
ان سب کوششوں کے ساتھ ساتھ اب وقت آگیا ہے کہ انفرادی سطح پر بھی ہم سب اپنی ذمہ داری ادا کریں اور ماحول دوست ہونے کا ثبوت دیں۔ اس حوالے سے ہر فرد کا کردار اہم ہے۔ کیونکہ:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ