• news

گندم کا بحران مستقل ناقص حکمت عملی کا نتیجہ

عترت جعفری
 پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس  کی  ا بادی اور ورک فورس  کا بہت بڑا انحصار زراعت کے اوپر ہے، ملک کے جی ڈی پی کا قریبا 23 فیصد حصہ زراعت پر مبنی ہے جبکہ ہماری لیبر فورس کا 60 سے 70 فیصد حصہ زراعت پر انحصار کرتا ہے، اللہ تعالی کا کرم ہے کہ اس نے پاکستان کو زرخیز زمین سے نوازا، گندم چاول گنا کپاس کھجو ،ر ترشیدہ  تر شیدہ پھل دالیں  ، ، مکئی ،کپاس اور  دوسری فصلیں  پیدا ہوتی ہیں، ان میں سے کچھ تو ملکی ضرورت سے زائد ہیں اور برامد کی جاتی ہیں اور جب کچھ ایسی اجناس ہیں جو کبھی زیادہ اور کبھی کم ہو جاتی ہیں، زراعت  کے اگر ٹریک ریکارڈ کو دیکھا جائے، ایک چیز جو بہت ہی واضح طور پر کہی جا سکتی ہے، زراعت پر اتنے بڑے انحصار کے باوجود ہمارے پاس قلیل ، درمیانی اور طویل مدت کی حکمت عملی موجود نہیں، اگر  کسی حد تک ہے بھی تواکثر ناکام رہی ہے، اگرچاول ملک کی ضرورت سے کم پیدا ہوا ہے قیمت آسمان کو چلی گئی اور اگر ہدف سے زیادہ چاول پیدا ہو گیا تو بے وقعت ہو گیا۔ یہی حال پیاز ٹماٹر،،مکئی ، گندم ، اور دیگر اجناس کا ہے، قیمتوں کا اتار چڑھاؤ ہوتا ہے ، کاشتکاروں کو شدید نقصانات برداشت کرنا پڑتے ہیں اور حکومت لا تعلق بنی رہتی ہے۔ زراعت  اب ایک سائنس بن چکی ہے، یوکرائن ایک چھوٹا سا ملک ہے ، یہ تھوڑی سی زمین پر اتنی گندم پیدا کر رہا ہے کہ اس ملک کی پیداوار دنیا میں گندم کی قیمتوں  پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ہم زراعت  میں خطے کے ملکوں سے بھی  پیچھے رہ گئے ہیں بیج سے لے کرپیداوار، کھاد کی فراہمی ،سٹوریج،  پانی کی مینجمینٹ ، درآمد اور برامدسمیت  زراعت کے کسی بھی سیکٹر میں کو کوئی پلان کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔
 اب سی پیک کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کی باتیں ہو رہی ہیں اور ممکنہ طور پر چین کے ساتھ زراعت کے شعبہ میں تعاون بڑھانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ہمارے ہاں وہ ٹیکنالوجی منتقل ہونا شروع ہوگی جو 21ویں صدی کی  زراعت کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ ملک میں اس بار گندم کا جو حال ہوا ہے وہ ہماری ناکامی کا بہت بڑا ثبوت ہے، گندم جو اس ملک کی 100 فیصد آبادی کی بنیادی خوراک ہے، اس ملک کے منصوبہ ساز اس کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں، ہر سطح پر ایک مافیا ، بددیانت سوچ موجود ہے جو صرف پیسہ بناتا ہے ، اور اس کا کوئی احتساب نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان میں گندم  کے سیزن (مئی تا اپریل) گندم کی پیداوار حکومت کی 32.11 ملین میٹرک ٹن کی  ابتدائی  پیشین گوئی سے کم ہوئی۔ بہر حال، یو ایس ڈی اے  ایگریکلچرل سروس کے مطابق، تصدیق شدہ بیج کے استعمال میں اضافے اور آبپاشی کی بہتر کارکردگی کی بدولت یہ اب بھی ریکارڈ 28.8 ملین ٹن ہونے کی توقع ہے۔ موجودہ فصل کا تخمینہ گزشتہ سال کی گئی 28.2 ملی میٹر کٹائی پر 2.1 فیصد اضافہ ہے، تاہم حقیقی اعداد وشمار جلد سامنے آ جائیں گے ،مگر گندم کے ساتھ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک بڑے سکینڈل میں بدلتا جا رہا ہے ،یہ کئی سو ارب روپے کا سکینڈل ہے ،ملک کے اندر گندم کی درآمد کے سکینڈل کی  تحقیقات ہو رہی ہے، جس میں موجودہ  اور سابق سرکاری عہداروں کے بیانات قلم بند کیے جا رہے ہیں اور اس کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جائے گی، سابق نگران حکومت کے دور میں دو بار گندم کی درآمد کا معاملہ ای سی سی کے سامنے آیا، پہلی بار اس کی محرک نیشنل فوڈ سکیورٹی کی وزارت تھی۔ جبکہ دوسری بار وزارت تجارت نے گندم کی درآمد کے لیے ای سی سی سے رجوع کیا، ای سی سی کے اجلاسوں کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ فوڈ سکیورٹی کی طرف سے یہ سمری لائی گئی کہ گندم  سال 24  ۔ 2023 کے لیے 10 لاکھ ٹن  گندم ٹی سی پی کے ذریعے درآمد کی جائے، اسی اجلاس میں پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے گندم کی درآمد کی حوصلہ افزائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اور یہ کہا گیا نجی سیکٹر بھی گندم منگوائے، یہ اجازت وزارت خزانہ کے نوٹیفکیشن  مجریہ 2008 کے تحت دی گئی، اور کہا گیا کہ گندم  کی درآمد امپورٹ پالیسی آرڈر 2022 کے تحت ہوگی، ریکارڈ  میں واضح نہ کیا گیا کہ نجی شعبہ کے لیے گندم درآمد کرنے کی حد کیا ہوگی۔ ا سی اجلاس میں ای سی سی نے  وزارت فوڈ سکیورٹی کو یہ ہدایت کی کہ ملک کے اندر گندم کے سٹاک کی تصدیق تھرڈ پارٹی ویریفکیشن کے ذریعے کرائی  جائے اس کے بعد کا ریکارڈ یہ نہیں بتاتا کہ اس تھرڈ پارٹی ویریفکیشن کے نتائج کیا ملے تھے۔ ملک کے اندر گندم درآمد کا معاملہ فروری 2024 میں ایک بار پھر ای سی سی کے سامنے آیا، اس  بار  وزارت کامرس نے یہ تجویز دی گندم کی درامد کی اجازت دی جائے تاکہ اس سے بنا ہوا آٹا  برامد کیا جا سکے، یہ اجازت ایکسپورٹ فیسلٹیشن سکیم کے تحت مانگی گئی تھی، اسی سی سی  نے اس کی اجازت دے دی، ریکارڈ یہ نہیں بتاتا کہ اس سکیم کے تحت آنے والی گندم سے  کتنا آٹا یا گندم کے آٹے کی بنی اشیاء  ویلیو ایڈیشن کے ساتھ برآمد کیں ۔
 ملک کے اندر گندم کی بمپر کراپ  آنے کی وجہ سے  حادثاتی  طور پر گندم  توجہ کی مرکز بن گئی ہے، پنجاب حکومت ہو یا  وفاقی  حکومت دونوں اس کی وجہ سے مشکل میں ہیں ،  مگر یہ حقیقت ہے کہ ملک کے اندر گندم کی پیداوار کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا ہے، کم گندم پیدا ہوئی ہے لیکن جتنی پیداوار ہوئی ہے اس کو سنبھالنا  سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال مارچ تک مجموعی طور پر 34لاکھ 49 ہزار 436 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی ،پنجاب حکومت نے تاخیر سے نشاندہی کی جبکہ 31 مارچ کو آخری جہاز آنے سے 6 روز پہلے اعتراض اٹھایا۔25 مارچ 2024 کو سیکرٹری فوڈ پنجاب کی جانب سے لکھے گئے ، خط میں کہا گیا کہ اب تک ساڑھے 34 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کی جا چکی ہے،  امپورٹ جاری رہی تو ناصرف مارکیٹ میں گندم سر پلس ہوگی بلکہ کسان بھی متاثر ہوگا، پنجاب میں گزشتہ برس 40 لاکھ ٹن گندم خریداری کی گئی، مارکیٹ میں امپورٹڈ گندم کی موجودگی سے گندم کی ریلیز محض 18 لاکھ ٹن ہو سکی۔خط میں مزید لکھا گیا تھا کہ پنجاب کے پاس 22 لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے، صوبائی حکومت کے پاس موجود اسٹاک کی مالیت 80 ارب ہے جس پر سود دینا ہے۔خط میں پنجاب کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ گندم کی مزید امپورٹ سے سرکاری خزانے کو نقصان ہو گا، مکمل پابندی لگائی جائے۔گندم درآمد اسکینڈل کی تحقیقات کے حوالے سے قائم انکوائری کمیٹی کے سامنے گندم کی درآمد کے اگست 2023 سے مارچ 2024 کے اعداد و شمار پیش کردیے گئے۔انکوائری کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ گندم روس یوکرائن سمیت دیگر ممالک سے بھی درآمد کی گئی، درآمد کنندگان کی فہرست بھی کمیٹی میں پیش کی گئی،رپورٹ کے مطابق گندم کے 70جہاز6 ممالک سے درآمد کیے گئے، پہلا جہاز پچھلے سال 20 ستمبر کو اور آخری جہاز 31 مارچ رواں سال پاکستان پہنچا، باہر سے گندم 280 سے 295 ڈالرز پرمیٹرک ٹن درآمد کی گئی۔گندم کے اس سکینڈل کو انجام تک پہچانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ اس طرح کے مسائل سے بچا جا سکے۔

ای پیپر-دی نیشن