صنعتوں کیلئے بجلی، گیس مہنگی کرینگے، پاکستان کی آئی ایم ایف کو یقین دہانی
اسلام آباد(عترت جعفری)پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے عہد وپیمان میں کہا ہے کہ آئندہ مالی سال میں پرائمری سرپلس کو جی ڈی پی کے ایک فیصد(کم وبیش ایک ہزار ارب روپے)کیا جائے گا، گیس اور بجلی کے سیکٹر میں تمام ایڈجسٹمنٹ اس انداز میں کی جائیں گی کہ لاگت پوری طرح وصول ہو جائے، گیس سیکٹر میں صنعتوں اور علاقوں کے اندر قیمت کے فرق کو ختم کیا جائے گا، یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ کوئی نئی ٹیکس ایمنسٹی سکیم نہ کوئی ترجیحی ٹیکس رعایت یا چھوٹ دی جائے گی۔ مالی سال 2025 میں بھی کوئی فیول یا کراس سبسڈی سکیم نہیں لائی جائے گی۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سات ماہ کی نگران حکومت کے دوران سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پر عمل درآمد پوری تندہی سے کیا،اب نئی حکومت ریفارم کے ایجنڈا پر عمل کرے گی۔ آئی ایم ایف سے وعدہ کیا گیا ہے کوئی ضمنی گرانٹ جاری نہیں کی جائے گی، حکومتی گارنٹیزکو 4900 ارب روپے سے بڑھنے نہیں دیا جائے گا اور قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر رعایت کا کوئی ایس آر او جاری نہیں ہو گا۔ پاکستانی حکام کے وعدون میں شامل ہے کہ گیس سبسڈی ریفارمز کی تجویز سال 24 کے اختتام سے پہلے تیار کر لی جائے گی، غریب صارفین کا تحفظ کیا جائے گا، وعدہ کیاکہ ایس آئی ایف سی کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جائیگا جس سے غیر متوازن پلیئنگ فیلڈ پیدا ہو جائے، آپریشن میں شفافیت اور احتساب کے طریقے اختیار کئے جائیں گے، آئی ایم ایف نے جن خطرات کا ذکر کیا ان میں قرضوں کا حجم، برآمدات کی محدود بیس، سرمایہ کاری اور ایف ڈی آئی، تعلیم اور صحت پر کم اخراجات، آمدن سمیت صنفی عدم مساوات شامل ہیں۔ قرض ادائیگی کی صلاحیت سماجی اور سیاسی کشیدگی، سیکیورٹی کے حالات جیسے رسک بھی موجود ہے۔کرپشن کے اداروں کو موثر بنانے کی ضرورت ہے، حکومت نے کہاکہ ایف بی آر کے سالانہ ٹیکس ہدف میں 1698 ارب روپے اضافے کی تجویز دی ہے، سالانہ ٹیکس ہدف 9415 ارب روپے سے بڑھا کر11ہزار 113 ارب کرنے کا پلان بنایا گیا ہے۔ دستاویز کے مطابق تاجروں سے یکم جولائی 2024 سے ایڈوانس انکم ٹیکس وصولی شروع ہو جائے گی، ٹیکس ریونیو و شفافیت بڑھانے کیلئے ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کا عمل بھی تیز ہوگا۔ ریٹیل، ہول سیل، رئیل اسٹیٹ، زرعی شعبے سمیت کئی شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا عزم کیا گیا ہے ،رواں مالی سال کے بجٹ میں حکومتی اخراجات میں 235ارب کی کمی لانے پر اتفاق کیا گیا۔ڈائریکٹ ٹیکس کا ہدف 4216ارب سے بڑھا کر 4597کردیا گیا،ایف بی آر نے اپنے معاشی ٹارگٹ حاصل کرنے کے لئے نئے سیلز ٹیکس کا ہدف 3ہزار 45ار ب سے کم کر کے 3ہزار 166ارب، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 571سے کم کرکے 561ارب کردیا گیا۔پٹرولیم لیوی مد میں وصولی کا ہدف 918ارب سے بڑھا کر 923ارب روپے کردیا گیا، سود کی ادائیگیاں 231ارب کمی سے 8ہزار31ارب روپے کرنے اور دفاعی بجٹ 35ارب روپے اضافے سے 1839ارب روپے کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے جبکہ مشاورت کے بعد بجٹ بنانے کی یقین دہانی کروادی۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ سال 25-2024میں بجلی ٹیرف کی سالانہ ری بیسنگ کا نوٹیفکیشن بروقت جاری کیا جائے جبکہ پاور پرچیز ایگریمنٹس پر نظرثانی اور زرعی ٹیوب ویلز کی سبسسڈی میں اصلاحات کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے تمام کھاد کمپنیوں سے گیس کی مکمل قیمت وصول کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے جون تک بجلی سیکٹر میں گردشی قرضے کا 2300 ارب کا ہدف پورا کرنے پر زور دیا ہے۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ بجلی اور گیس ٹیرف میں ایڈجسٹمنٹ کے وقت غریب گھرانوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کو بجٹ میں کوئی نئی ٹیکس ایمنسٹی، چھوٹ یا رعایت اور مشاورت کے بعد بجٹ بنانے کی یقین دہانی کرادی ہے۔ایف بی آر ذرائع کے مطابق بجٹ میں کوئی نئی ٹیکس ایمنسٹی، چھوٹ یا رعایت نہیں دی جائے گی ۔