ملک تباہ کرنے کیلئے ہرکوئی حصہ ڈال رہا، سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں چیف جسٹس
راولپنڈی (سٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ نے صحافیوں پر تشدد اور انہیں ہراساں کرنے سے متعلق کیس میں پولیس تفتیش کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے تفتیش کیلئے اہل افسر تعینات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے قرار دیا کہ صحافیوں پر تشدد کرنے والے ملزموں کے خاکے اخبارات میں شائع کر کے گرفتاری کیلئے انعامی رقم مقرر کی جائے۔ عدالت نے صحافیوں پر تشدد اور اغوا کی فوٹیج پنجاب فرانزک لیبارٹری بجھوانے کی بھی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے، پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر عدالت میں پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا، ملک کو تباہ کرنے کیلئے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے، سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں، کون سا مشہور آدمی چکوال میں بیٹھا ہوا ہے،گالیاں دینا ہو تو ہر کوئی شروع ہو جاتا ہے، کوئی سچ نہیں بولتا، غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا، کوئی غلط خبر پر یہ نہیں کہتا ہم سے غلطی ہو گئی ہے، غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں، بس فون اٹھایا اور صحافی بن گیا کہ ہمارے ذرائع ہیں، کسی کے کوئی ذرائع نہیں، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکی جاؤ، باہر کے ملک میں ایسا ہوتا تو ہتک عزت کے کیس میں جیبیں خالی ہو جاتیں، ہم محفوظ پاکستان چاہتے ہیں۔ چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار راجہ شیر بلال، ابرار احمد اور ایم آصف ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے اور عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہا کسی نے آپ کے نام اور رہائشی پتے کیسے استعمال کیے، کیا آپ بغیر اجازت درخواست دائر کرنے والوں کیخلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے۔ ایم آصف نے کہا اگر آپ کی سرپرستی ہوگی تو ہم ایف آئی آر کٹوا دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم کیوں سرپرستی کریں۔ درخواست گزاروں کے وکیل حیدر وحید سے چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کو صرف چکوال والے کلائنٹ ہی کیوں ملتے ہیں، وکیل کو اپنا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ خود کرنے کا اختیار ہوتا ہے، مطیع اللہ جان کیس میں پیشرفت نہ ہونے پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے ایس ایس پی انویسٹگیشن کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا سامنے آؤ، واقعے کی ریکارڈنگ موجود ہے اغواکاروں کا سراغ کیوں نہ ملا؟۔ ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے جواب دیا ہماری سی سی ٹی وی موجود نہیں ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا جھوٹ بولنے پولیس میں آئے ہو؟ یہ کیا بات کر رہے ہو؟ پولیس یونیفارم کی توہین کر رہے ہو، ریکارڈنگ موجود ہے اور کہہ رہے ہو ریکارڈنگ نہیں، کچھ پڑے لکھے بھی ہو یا نہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا مجھ سے پہلے ایک زمانہ تھا جب ایسی درخواستیں دائر کی جاتیں تھیں، اب وہ زمانہ چلا گیا، ایسی بوگس درخواستیں دائر کرنے والوں کو نتائج بھگتنے پڑیں گے، اب مٹی پائو پالیسی نہیں چلے گی، سپریم کورٹ کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا تھا اب ایسا نہیں چلے گا، 27 سال بطور وکیل پریکٹس کی کبھی ایسے شخص کیلئے پیش نہیں ہوا جسے ذاتی طور پر دیکھا نا ہو۔ ابصار عالم نے کہا یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ یہ درخواست دائر کرکے نیکی کا کام کس لئے کیا گیا ہے، کیا درخواست دائر کرنے والا خود آیا تھا یا کسی نے فون کیا تھا، ایک دفعہ اس کیس کی پیروی کیلئے آپ اسلام آباد آئے تھے، آپ کی ٹکٹ اور رہائش کا خرچہ کس نے اٹھایا تھا۔ وکیل وحید حیدر نے جواب دیا اسلام آباد میں میری اپنی رہائش گاہ ہے اور ٹکٹ کا خرچ بھی جیب سے اٹھایا تھا۔ عدالتی استفسار پر ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے جواب دیا ابھی تک مجھے کوئی فیس نہیں ملی۔ چیف جسٹس نے کہا میری سربراہی میں دو رکنی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کیلئے خلاف کیس سنا، پھر یہ کیس میرے ہاتھ سے چھین کر دوسرے بینچ کو بھیج دیا گیا، پھر آپ منظر عام پر آئے، آپ سمجھتے ہیں ہم اس معاملے کو نظر انداز کردیں؟ جب مجھ سے کیس چھینا گیا اس وقت سپریم کورٹ کس طرح سے چلائی جاتی تھی، اس معاملے میں سپریم کورٹ کو استعمال کیا گیا، ہمیں غلط کو غلط کہنا چاہیے، کسی کے کیے کا بوجھ میں کیوں اٹھاؤں؟۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ براہ راست کسی معاملے پر تفتیش نہیں کرسکتی، عدالتوں سے فوجداری مقدمات میں ناقص تفتیش پر 16 ، 16 سال بعد بری ہو جاتے ہیں، پولیس یونیفارم پہننے والوں میں جرات ہونی چاہئے، ہم شفاف تفتیش چاہتے ہیں، اگر انسپکٹر ہوتا تو ہم کہتے یہ کم پڑھا لکھا ہے لیکن یہ تو ایس ایس پی ہے، یہ تاثر قائم نہیں ہونا چاہئے کہ فوجداری نظام انصاف ناکام ہوچکا ہے، ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے، پولیس میں صلاحیت ہے مگر جرات نہیں ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا ہر پولیس یونیفارم پہننے والا ججز کی طرح حلف لیتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم پاکستان کو محفوظ ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا اب نئے آئی جی آئے ہیں اس معاملے میں پیش رفت ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا مطیع اللہ جان کے اغوا کے واقعے کی چوتھی سالگرہ ہونے والی ہے، بتایا گیا ہے کوئی پولیس والا باتھ روم تو کوئی نماز پڑھنے گیا ہوا تھا، پولیس صرف خود کو تحفظ دے رہی ہے، پولیس افسر کے ساتھ لمبے لمبے قافلے چلتے ہیں، مطیع اللہ جان کیس میں تو ویڈیو بھی موجود ہے تو اس کیس کی کھوج کیوں نہیں لگ سکی۔ ایس ایس پی انوسٹی گیشن مسعود احمد بنگش نے جواب دیا مطیع اللہ جان کو جہاں سے اٹھایا گیا اس جگہ پر سیف سٹی کے کیمرے نہیں تھے۔ چیف جسٹس نے کہا پوری دنیا نے ویڈیو دیکھ لی اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہی نہیں ہے، کیا آپ تعلیم یافتہ ہیں؟ یہ کیسی باتیں کرہے ہیں، ایسے افسر کو تفتیش سے فوری طور پر ہٹا دیں، یونیفارم پہن کر عدالت میں جھوٹ بولا گیا، شرم آنی چاہیے، آپ سپریم کورٹ کو بے وقوف بنا رہے ہیں؟ ہمارے ساتھ مذاق نہ کریں، دو تین کو ٹھکانے لگائیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے کہا ہم نے چوکی پر تعینات پولیس اہلکاروں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اہلکار نماز پڑھنے گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا لگتا ہے پولیس ملی ہوئی تھی، مطیع اللہ جان کو اٹھانے کا واقعہ صبح 11 بجے کا ہے، اس وقت کون سی نماز ہوتی ہے، لگتا ہے سارے جان چھڑا رہے ہیں ،کیا سیف سٹی پراجیکٹ ٹھیکے پر دے رکھا ہے؟۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا اب تو سائنس نے تفتیش کو بہت آسان کردیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کینیڈا نے اپنے ایک شہری کے قتل پر دوسرے ملک سے ٹکر لے لی تھی ، دوسرا ملک بھی چھوٹا ملک نہیں ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب یہ آپ کی حکومت میں نہیں ہوا، جب یہ واقعات ہوئے آپ کی حکومت نہیں تھی، ویسے تو سارے سیاسی مخالفین پر لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں مگر اس معاملے پر سارے ایک پیج پر کیوں آ جاتے ہیں؟ کیا ہم ایف آئی اے کو کہیں کے وہ پولیس کی تفتیش کریں، آپ کو بہت شوق ہوتا ہے جے آئی ٹی بنانے کا، اب ہم بنا دیتے ہیں، ایف آئی اے کو کہتے ہیں پتہ کرے پولیس کی اس کیس میں کوئی ملی بھگت تو نہیں۔