یہ فصل گندم کی ہمدم …
مغربی ادویات کے بانی ہپو کریٹس کے پاس ایک بار ایک مریض لایا گیا جس کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی، جسم پر آبلے پڑے تھے۔ چہرے پر عجیب سے زخم اور آنکھیں بند تھیں۔ وہ ایک بار مریض کا معائنہ کر چکا تو لواحقین نے بے تابی سے پوچھا کیا یہ ٹھیک ہو جائے گا؟ اس پر ہپو کریٹس نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا ’’پہلے مجھے معلوم تو کر لینے دیں کہ اسے کون کون سا مرض لاحق ہے پھر میں بتاؤں گا کہ یہ ٹھیک ہو سکے گا یا نہیں؟
پچھلے 76 برسوں میں وطن عزیز کو کون کون سا اور کہاں کہاں مرض لاحق ہو چکا ہے اور ان میں سے سب سے بڑا کون سا ہے؟ ایک ایسا سوال ہے جو ہپو کریٹس کی طرح کسی کو بھی معلوم نہیں ہو پا رہا۔
کرپشن کی طرف نظر دوڑائیں تو توند بڑھائے ایک دیو کی طرح منڈلا رہی ہے۔ غضب کرپشن کی عجب داستانیں اربوں روپے یومیہ تک پہنچی ہوئی ہیں۔ اوپر تو اوپر نیچے بھی یہ حال ہے کہ جس طرح پرانے زمانے میں سفر پر جانے والے بازو پر امام ضامن بندھوا کر جایا کرتے تھے کہ آفات و بلیات دور رہیں اس طرح اب کسی سرکاری محکمے، ہسپتال، تعلیمی ادارے، انصاف کے مرکز ا ور تھانے میں جانے سے پہلے جیب میں ایک معقول رقم رکھ لیتے ہیں کہ آفات و بلیات کو خوش کر سکیں اور من کی مراد پا لیں۔ اپنے بچے کے لئے کسی تعلیمی سفر کو سر کرنے نکلیں تو معلوم پڑتا ہے کہ اب پڑھنا لکھنا کافی نہیں رہا۔ کچھوے خرگوش کی کہانی پرانی ہوئی۔ نئے دور کے نئے تقاضے ہیں۔ یہاں رینگتا ہوا کچھوا نہیں بلکہ اْچھل کود کرتا جیبیں بھرتا خرگوش ہونا لازم ہے پھر ہی کامیابی نصیب ہوگی۔ وہ باتیں پرانی ہوئیں جب خوب جی لگا کر پڑھو، امتحان دو اور سو جاؤ۔ اب اصل محنت امتحانوں کے بعد شروع ہوتی ہے کیا طالب علم کیا پرائیویٹ ادارے سب بڑے بڑوں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹوں کی جیبں بھرتے اور انہیں جیبوں میں رکھتے ہیں۔ تھانوں اور عدالتوں کا احوال دیکھ کر بابا عبیرابو ذری کی طرح ’’پِچّھوں کردہ پھراں ٹکور تے فَیدہ کِیھ" کے مصداق سب جانتے ہیں اور کرپشن کا لوہا مانتے ہیں۔ غرض یہ پالیسی سازی سے لے کر سفارتکاری تک تعلیم سے لے کر افسر شاہی تک اور ملکی افق کی ایک سمت سے لے کر دوسری سمت تک تاحد نظر نالائیقیوں، بدعنوانیوں، میرٹ کی دھجیوں اور کرپشن، غلط کاریوں کا ایک ختم نہ ہونے والا اندھیرا چھایا ہوا ہے کہ غالب بھی کہنے پر مجبور ہیں:
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
یہ سب معاملات تو ہیں اور قیام پاکستان سے لے کر اب تک اتنے طاقتور توانا ہو چکے ہیں کہ ان کے سامنے قانون کی باتیں کرنا رضیہ کی چیخ و پکار دکھائی پڑتی ہے جو بہت سے غنڈوں کے درمیان گھر کر گونگوں بہروں کی بستی میں مدد کے لئے چلّا رہی ہو۔
ایک سیاح رضیہ کی طرح ایسے جنگل میں (پاکستان نہیں) آنکلا جو آدم خوروں کا جنگل مشہور تھا۔ جب اْسے جنگلی قبائلی گروہ نے گھیر لیا تو اندازہ ہوا کہ شوق کے ہاتھوں غلط جگہ آگیا ہے اور اس کی حالت بھی اتنی ہی پتلی ہو گئی جتنی ہمارے ہاں کسی بڑے کو دیکھ کر قانون کی ہو جاتی ہے۔ خیر جنگلی خلاف توقع بڑی عزت سے پیش آئے اور اسے اپنے سردار کے پاس لے گئے۔ سردار نے سب کے سامنے بڑے احترام سے اپنے ساتھ بٹھایا، روٹی پانی پوچھا تو جان میں قدرے جان آئی۔ ہمت باندھی اور ہکلاتے ہوئے سردار سے پوچھا کہ یہاں آدم خور رہتے ہیں؟ اس پر سردار ایسے انداز میں ہنسا جیسے بلی چوہے کو پکڑ کر ہنستی ہے اور بولا اطمینان سے گھومیں پھریں، آخری آدم خور کو ہم پچھلے ہفتے ہی بھون کر کھا چکے ہیں۔
جی ہاں وطن عزیز میں سکینڈل اس طرح برستے ہیں کہ دل سے احساسِ روزِ جزا بالکل ہی جاتا رہا ہے تاہم تازہ ترین سکینڈل نے تو ساری حدیں ہی پار کر دی ہیں اور بہتری کی امید پر بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے بالکل یہ سکینڈل گندم درآمد کا سکینڈل ہے۔ دہائی خدا کی جب ہم بھکاریوں کی طرح ملکوں ملکوں پھر رہے ہیں اور مالیاتی اداروں کے آگے ہاتھ پھیلا پھیلا کر یقین دہانیاں کرا رہے ہیں کہ آخری بار مدد کردیں آگے بہتری ہی بہتری ہے چاہے ہمیں اپنا پیٹ کاٹنا پڑے۔ برادر ملکوں کے آگے اپنے اداروں کا ڈھیر لگا کر بیٹھے ہیں کہ ہم سے تو یہ چل نہ سکے آپ انہیں سنبھالئے اور یقین رکھیں کرپشن سے پاک بزنس فرینڈلی ماحول فراہم کرنا ہمارا کام ہے جس کے لئے ہم سردھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ دن رات ایک کر دیں گے وغیرہ وغیرہ ۔
ایک طرف تو یہ باتیں ہیں دوسری طرف غربت کی چکی میں مسلسل پسنے والے غریب عوام ہیں جن پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے وہ غربت کی لکیر کی طرف پھسلتے جا رہے ہیں اور روز جینے کی آس میں مررہے ہیں۔ ملکی آبادی کے 90 فیصد سے زائد لوگ بہتر علاج تو ایک طرف باقاعدہ دوا لینا بھی اب ایک عیاشی تصور کرتے ہیں۔ ایک وقت کی روکھی سوکھی کھا کر سمجھتے ہیں کہ رنگ لائے گی انکی فاقہ مستی ایک دن۔ سارا دن محنت کرکے اتنا کما پاتے ہیں کہ یا بچوں کے منہ میں نوالہ ڈال دیں یا خود کی بھوک مٹا لیں۔ اس پر کوئی نہ کوئی بچی کھچی چیز بیچ کر یا اْدھار لے کر بل الگ سے ادا کرنا پڑتا ہے ان کے ساتھ وہ دو کروڑ 62 لاکھ بچے بھی ہیں جو سکول تو کیا سکول کا منہ بھی نہیں دیکھ پاتے اور دیکھ پاتے ہیں تو ا س طرح کہ سکولوں کے باہر چھوٹے موٹے کام کرنے یا بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ ان سب کو ریاست آس دلاتی ہے کہ تھوڑا صبر مزید۔اس کے بعد دودھ شہد کی نہریں منتظر ہیں۔ کچھ مشکل فیصلے پھر آسانیاں ہمارا مقدر ہیں، پھر کوئی کرپشن ہوگی نہ ہی ملاوٹ اور جعل سازی۔ ایک پائیدار انصاف اور میرٹ سب کا مقدر ہوگا۔
یہ غربت کی لکیر سے نیچے سرکتے کروڑوں عوام یہ جہالت کی چکی میں پستے ہوئے کروڑوں بچے شاید آخری بار کسی اچھائی کے موہوم سے منتظر ہیں۔ اس ماحول میں وہ کون لوگ ہیں جو بڑی سفاکی سے بڑی بربریت سے ایک ارب ڈالر کا ڈاکہ ڈال کر آزاد گھوم رہے ہیں۔ اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھ رہے ہیں۔ اپنی بلٹ پروف اور عوام کی دسترس سے محفوظ گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے سڑک پر پڑی ہمارے اپنے کسانوں کے خون پسینے سے سینچی ہوئی گندم کو بڑی رعونت سے روندتے چلے جا رہے ہیں۔
ارباب اختیار جان لیں یہ آخری موقع ہے اگر یہ لوگ قانون کی گرفت میں نہ آئے تو پھر عوام کا منہ ہیرے سونے سے بھر دینے کے دعوے بھی مداوا نہیں کر سکیں گے۔ پھر احتساب، اچھے وقت اور بہتر مستقبل کی باتوں سے سب کا اعتبار اس طرح اْٹھ جائے گا جس طرح پنجرہ کھلتے ہی پرندہ اْڑ جاتا ہے۔ یہ آخری موقع ارباب اختیار کے لئے عوام کے درمیان اعتماد سازی کا پہلا موقع بھی بن سکتا ہے۔ یقین کا پنچھی پنجروں میں واپس بھی آ سکتا ہے اور ایک ایسے سفر کا نکتہ آغاز ہو سکتا ہے جو قوم کے ٹوٹے ہوئے پر پھر جوڑ کر اسے بلندیوں کی طرف محوِ پرواز کر دے۔
ارباب اختیاراسے ٹیسٹ کیس بنا لیں اور اس کے مرتکب قوم کے مجرموں کو ایسی سزا دیں کہ 76 سالہ کرپٹ سسٹم کے درودیوار ہل کر رہ جائیں ورنہ تو ہر کوئی سوال کر رہا ہے کہ:
یہ فصل امیدوں کی ہمدم
اس بار بھی غارت جائے گی
سب محنت صبحوں شاموں کی
اب کے بھی اکارت جائے گی
٭٭٭٭