آزاد کشمیر کی احتجاجی تحریک اور میڈیا کی حدود
بار ہا اس کالم میں ایڑیاں رگڑتے فریاد کرتا رہا ہوںکہ روایتی صحافت کو اپنا فریضہ ادا کرنے دیں۔ اس کی خامیوں کو نظرانداز کریں۔ دیانتداری سے خبروں کا کھوج لگانے والوں کی حوصلہ شکنی نہ کریں۔روایتی اخبارات اور پیمرا کے قواعد وضوابط کے تحت چلائے ٹی وی چینلوں کے ذریعے اگر برسرزمین حقائق کھل کر بیان نہیں ہوں گے تو عوام کی اکثریت ’خبر‘ کی تلاش میں سوشل میڈیا پر کامل انحصار کی عادت اپنالے گی۔ ایسا ہوجانے کے بعد ’خبر‘ کے حوالے سے فقط سوشل میڈیا ہی معتبر ٹھہرتا ہے۔ اس کی ’ساکھ‘ تاہم دو نمبری ہوتی ہے کیونکہ یہ ’خبر‘ تلاش کرنے کے ہنر سے محروم ہونے کے علاوہ ’فسادِ خلق‘ بھڑکانے سے بھی گھبراتی نہیں۔
عالمی سطح پر دنیا میں اخباروں کے لیے رپورٹنگ کی وجہ سے مشہور ہوئے چند صحافیوں کی لکھی کچھ کتابیں بہت مشہور ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام The Chaos Machineہے۔ اس عنوان کا آسان ترجمہ ’انتشار پھیلانے والی مشین‘ ہوسکتا ہے۔ براہِ مہربانی مجھ سے اس کتاب کے مصنف کا نام نہ پوچھیں۔ فی الوقت یاد نہیں آرہا۔ موبائل فون اٹھاکر گوگل ایپ پر جائوں تو اس کا نام ڈھونڈ لوں گا۔ اسے ڈھونڈنے کے چکر میں لیکن کالم کی روانی میں خلل آئے گا۔ خود ہی زحمت اٹھاکر نام معلوم کرلیں۔ ویسے بھی شیکسپیئر نے کہہ رکھا ہے کہ ’نام میں کیا رکھا ہے‘۔ آج کے موضوع کا اصل مقصد اس حقیقت کو اجاگر کرنا ہے کہ سوشل میڈیا ’آزادیِ اظہار‘ کے بہانے دنیا کے بے شمار ملکوں میں نسلی اور مسلکی فسادات بھڑکانے کا باعث ہوا۔ اس کی بھڑکائی آگ کو ٹھوس اعدادوشمار اور تحقیقی زندگی میں رونما ہوئے واقعات یکجا کرتے ہوئے رپورٹنگ سے تحقیق کی جانب مائل ہوئے صحافیوں نے اپنی کتابوں میں تفصیل سے بیان کردیا ہے۔
ہمارے ہاں روایتی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو برسرزمین حقائق کی وجوہات کا کھوج لگانے کی لگن نصیب نہیں ہوئی۔ چھوٹے صوبے اور شہر ویسے بھی ہماری توجہ کے مستحق تصور نہیں ہوتے۔ ٹی وی چینلز کا سب سے بڑا مسئلہ ریٹنگز ہے۔ ریٹنگ ہو تو اشتہار ملتے ہیں۔ وہ نہ ملیں تو سٹاف کو تنخواہیں نہیں ملتیں۔ اور ریٹنگ بدقسمتی سے اسی وقت نصیب ہوتی ہے اگر آپ کراچی،لاہور، فیصل آباد، کوئٹہ یا پشاور جیسے بڑے شہروں کے ڈرائنگ روزمز میں زیر بحث موضوعات کو چسکے دار بناکر پیش کرنے کی ترکیب دریافت کرلیں۔
روایتی میڈیا کی محدودات اور کوتاہیوں کا اعتراف کرنے میں تمہید لمبی ہوگئی۔ جو سوال گزشتہ دو دنوں سے تنگ کیے جارہا ہے اسے فی الفور آپ کے روبرو رکھ دیتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ آٹھ مہینوں کے دوران کون سے اخبار یا ٹی وی چینل کے کون سے رپورٹر نے کتنی خبروں یا پروگراموں کے ذریعے آپ کو یہ بتایا کہ ’پاکستان کے زیر انتظام‘ شمار ہوتے آزادکشمیر میں ایک عوامی تحریک کا لاوہ اُبل رہا ہے۔جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے نام سے اب تک گمنام رہی چند سیاسی تنظیموں کا الحاق قائم ہوا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ منگلا ڈیم کے ذریعے پاکستان کو بجلی فراہم کرنے والے آزادکشمیر کو بجلی اگر مفت فراہم نہیں کی جاسکتی تو اس کے ایک یونٹ کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں کم سے کم تررکھی جائے۔ بتدریج مہنگائی سے نالاں ہوئے عوام کی خواہش کی بنیاد پر مطالبہ یہ بھی اٹھا کہ آزادکشمیر میں فروخت ہونے والے آٹے کو سستے داموں بیچنے کی راہ نکالی جائے۔
کسی اور کو دوش کیا دوں۔ کئی دہائیوں سے اپنی زندگی کا وقت وقتی صحافت کی نذر کردینے کے باوجود میں خود بھی اس امر سے کماحقہ آگاہ نہیں تھا کہ اسلام آباد سے محض تین گھنٹوں کے فاصلے پر مظفر آباد اور اس کے نواحی قصبوں میں مذکورہ بالا معاملات اجاگر کرتے ہوئے عوام کو متحرک کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ بروقت اندازہ ہوجاتا تو شاید عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوجانے کے باوجود میں ایک دو روز کے لیے وہاں چلاجاتا اور اس کالم میں سستی بجلی اور آٹے کی خواہش میں اُبلتی تحریک کے بارے میں اپنے قارئین وناظرین کو آگاہ رکھنے کی کوشش کرتا۔ اپنی لاعلمی کوتاہی اور کاہلی پر شرمندہ ہوں۔ پاکستان میں لیکن مجھ سے کہیں زیادہ متحرک ’صحافی‘ ان دنوں بے شمار ہیں۔ روایتی میڈیا سے لاتعلقی کے باوجود صحافیوں کی ایک بھاری بھر کم تعداد نے سوشل میڈیا کے یوٹیوب پلیٹ فارم کے ذ ریعے قوم کو ’حقیقی‘ خبروں سے آگاہ رکھنے کا فریضہ اپنے سراٹھارکھا ہے۔ میری بدقسمتی کہ یوٹیوب کی وجہ سے مشہور ہوئے صحافیوں کی بدولت بھی میں آزادکشمیر میں پلتے لاوے کے بارے میں بے خبررہا۔
تقریباً چار روز قبل مگر ابھی تک ہماری نگاہوںسے اوجھل رہا لاوا پھٹ گیا۔ وہ پھٹا تو ریاست پاکستان انگڑائی لے کر بیدار ہوئی۔ حیرانی کی بات یہ بھی ہوئی کہ آصف علی زرداری نے بطور صدر مملکت اس کا نوٹس لیا۔ پارلیمانی نظام میں صدر کا عہدہ بنیادی طورپر نمائشی ہوتا ہے۔ صدر زرداری نے مگر ایک گھاگ سیاستدان ہوتے ہوئے آزادکشمیر میں پھٹے لاوے کا نوٹس لینا ضروری تصور کیا۔ وہ متحرک ہوئے تو وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی آزادکشمیر یاد آگیا۔ پیر کی صبح انھوں نے عجلت میں ایک اجلاس طلب کیا۔ وہاں فیصلہ ہوا کہ آزادکشمیر کے رہائشیوں کو 40کلوآٹے کی قیمت 3100کے بجائے 2000روپے ادا کرنا پڑے گی۔ اس کے علاوہ بجلی کے صارفین اگر ماہانہ 100یونٹ استعمال کرتے ہیں تو ان سے فی یونٹ کی قیمت 3روپے وصول ہوگی۔ 300تک 5روپے اور اس سے زیادہ یونٹ خرچ کرنے والے ایک یونٹ کا 6روپے ادا کریں گے۔ ان دوسہولتوں کا حصول یقینی بنانے کے لیے وزیراعظم پاکستان نے ’دیوالیہ‘ ہورہے قومی خزانے سے فوری طورپر یکمشت 23ارب روپے جاری کردینے کا حکم بھی صادر کردیا۔
مذکورہ اعلانات کے بعد امید تھی کہ آزادکشمیر میں حالات معمول پر آجائیں گے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ احتجاجی تحریک کے قائدین نے وفاقی حکومت کے اعلان کردہ اقدامات پر اعتبار کرنے سے انکار کردیا۔ نظر بظاہر انتشار بلکہ مذکورہ اعلانات کے بعد مزید پھیل گیا ہے۔ کیوں؟ رات گئے تک روایتی اور سوشل میڈیا پر توجہ مبذول رکھنے کے باوجود میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہوں۔ بطور رپورٹر احتجاجی تحاریک کا نہایت لگن سے مشاہدہ کرتا رہاہوں۔ ان کے مطالبات مان لینے کو حکمران جھک جائیں تو ایسی تحاریک ختم ہوجاتی ہیں۔ حکمرانوں کا جھک جانا بھی اگر مظاہرین کو ٹھنڈا کرنے میں ناکام رہے تو ریاست اسے اپنی بے عزتی شمار کرتی ہے اور ندامت مٹانے کے لیے اپنے پاس موجود جبر کے ہتھکنڈے نہایت وحشت سے استعمال کرنا شروع ہوجاتی ہے۔ ربّ کریم سے فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ آزادکشمیر کی احتجاجی تحریک حکمرانوں کو اس جانب نہ دھکیلے۔