• news

بدھ ‘ 6 ذیقعد 1445ھ ‘ 15 مئی 2024

مراد علی شاہ کس300 یونٹ بجلی مفت دینے کااعلان۔
آج کل سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو اپنے صوبے کے عوام پر بڑا ترس آ رہا ہے۔ جبھی تو انہوں نے کہا ہے کہ وہ 300 یونٹ تک بجلی فری دیں گے۔ اب دینا نہ دینا بعد کی بات ہے۔ چلو ایسا کہہ کر ہی وہ لوگوں کے دل خوش کر رہے ہیں۔ کم از کم اس طرح بجلی کے بھاری بھرکم بلوں سے ادھ موئے ہوئے لوگوں کو تھوڑی سی راحت کا احساس ہی ہو گا۔ اب وہ جادوئی فارمولا مراد علی شاہ نے نہیں بتایا جس کے تحت وہ یہ کر سکیں گے۔ اس وقت سندھ ، پنجاب اور خیبر پی کے کے وزرائے اعلیٰ کے درمیان ایک غیر مرئی قسم کی ریس لگی ہوئی ہے اور وہ کوشش میں ہیں کہ جھوٹ موٹ ہی سہی اپنے صوبے کے عوام کو ایسے خوش کن اعلانات سے متاثر کر سکیں جن کا وقوع پذیر ہونا فی الواقع ممکن نہیں۔ عوام کا کیا ہے وہ تو سیاستدانوں کے ہر دعویٰ پر یقین کر لیتے ہیں۔ اس کے سوا چارہ بھی تو کوئی نہیں کیونکہ وہ کریں بھی تو کیا کریں۔ انہیں روٹی پانی کے چکر میں ایسا ا±لجھا دیا گیا ہے کہ وہ دن رات اسی میں کوہلو کے بیل کی طرح گھومتے رہتے ہیں۔ اب موسم گرما اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ اس موسم میں سب سے زیادہ بجلی کی یاد ستاتی ہے کیوں کہ چند لمحے بھی یہ ا±وجھل ہو تو جان پر بن آتی ہے۔ یوں لگتا ہے زندگی جہنم بن گئی ہے۔ 
سو اب ہمارے حکمران اس پر ہی سیاسی گیم کھیلیں گے تو کھیلنے دیں۔ اپوزیشن بھی تو یہی کام کر رہی ہے۔ بھاری بھرکم بجلی کے بل بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری ، لاقانونیت نے تو جیسے ہمارا ملک دیکھ لیا ہے اور یہاں سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ بہرحال اب دیکھنا ہے خیبر پی کے اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کیا سندھ کے وزیر اعلیٰ کے نہلے پر دہلہ مارتے ہیں۔ وہ عوام کے لیے کونسی اور کتنی رعایت کا جال پھینکتے ہیں۔ گیم کوئی بھی کھیلے مگر خدا کرے اس میں جیت عوام کی ہو۔ ان کو ریلیف ملے۔
٭٭٭٭٭
بھٹو کی تصویر والے نوٹ چھاپے جائیں۔ لاہور کے سیمینار میں مطالبہ 
اول تو یہ بات طے ہونی چاہیے کہ سیاسی شخصیات کی تصویر نوٹ پر نہیں لگ سکتی اور پھر جب تک آج بھی بھٹو زندہ ہے کل بھی بھٹو زندہ تھا کا نعرہ لگتا رہے گا اورتصویر کا معاملہ لٹکتا رہے گا ۔پہلے تو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ بھٹو زندہ بھی ہے یا فوت ہو چکے ہیں۔ اگر کسی کو اتنا ہی شوق ہے تو وہ بھٹو کی تصویر والے پوسٹ کارڈ چھاپ کر اپنا شوق پورا کر سکتا ہے۔ یا بہت ہوا تو بھٹو کی تصویر والے ڈاک کے ٹکٹ دیکھ کر دل بہلا سکتا ہے۔ کرنسی نوٹ پر صرف اور صرف بابائے قوم بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر ہی سجتی ہے اور صرف انہی کا حق ہے کہ ان کی تصویر لگائی جائے۔ اگر کسی اور سیاسی رہنما کی تصویر کی اجازت دی گئی تو کل کو درجنوں سیاسی جماعتوں کی طرف سے اپنے قائد کی تصویر چھاپنے کی بات ہو گی کیونکہ سب کا دعوی ہے کہ پاکستان کے اصل وارث وہ ہیں چاہے انہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت ہی کیوں نہ کی ہو۔ مگر اب وہ خود کو پاکستان کا ماما چاچا بنا کر پیش کرتے ہیں اور اس خوش فہمی میں ہیں کہ عوام سب کچھ بھول چکے ہیں۔ عوام کا حافظہ کمزور ہو سکتا ہے۔ تاریخ کا نہیں‘ ریکارڈ موجود ہے۔ اخبارات گواہ ہیں کہ کس کس نے زبانی تحریری اور تقریری طور پر قیام پاکستان کی حمایت کی اور کس کس نے مخالفت۔ 
اس لیے ایسے بچگانہ مطالبات کرنے والے عقل کو ہاتھ ماریں۔ کیا پہلے ہی گلیوں اور بازاروں میں سیاسی رہنماﺅں کی لگی تصویریں دیکھ کر دل کو تسلی نہیں ہو رہی کہ اب یہ بے معنی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایسی باتوں کا مقصد صرف دل پشاوری کرنا ہی ہوتا ہے یا پھر مطالبہ کرنے والے اپنے نئے رہنما بلاول بھٹو زرداری کے سامنے ایڑھیوں کے بل کھڑے ہو کر اپنا قدر اونچا کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
مقبوضہ کشمیر میں لوک سبھا الیکشن کیلئے فوج کے پہرے میں ووٹنگ 
بھارتی لوک سبھا یعنی پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کی تین نشستیں ہیں یہ آٹے میں نمک سے بھی کم اور اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ نام نہاد جمہوریت کی دعویٰ دار ریاست کشمیر کے غیر قانونی طور پر قابض حصہ میں الیکشن کا ڈھونگ رچاتی ہے۔ اس بار تو کامل 10 سال بعد وہاں بھارتی لوک سبھا کی تین سیٹوں کے لیے ووٹنگ میں بی جے پی کو خوف و دہشت پھیلا کر فوج کے نرغے میں یہ الیکشن کرارہی ہے مگر یہاں جیتنا اتنا آسان نہ ہو گا۔کیونکہ جموں میں اسے کانگریس اور کشمیر میں شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس ، محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کے علاوہ انجینئر رشید کی شکل میں ایک اور مضبوط حریف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کشمیریوں کے اکثر ووٹ انہی تین جماعتوں کے حصہ میں آئیں گے۔ کشمیریوں کی اکثریت خاص طور پر شہری علاقوں کے لوگ اور نوجوان ان باتوں سے بے نیاز ہیں وہ اس ڈھونگ الیکشن میں نہ تو حصہ لیتے ہیں نہ ووٹ ڈالنے کے جھنجھٹ میں پڑتے ہیں۔ ان حالات میں جموں میں ہندو توا کے نام پر شاید بی جے پی میدان مار لے کیونکہ کانگریس کا زیادہ زور نہیں چل رہا۔ البتہ کشمیر میں کشمیری جماعتیں باہمی طور پر نبردآزما ہیں دیکھتے ہیں ان میں کون کامیاب ہوتا ہے۔ اگر انجینئر رشید جیتا تو پھر لوک سبھا میں روزانہ تماشہ ہو گا اور وہاں کے ممبران کو کشمیری جنگ نامہ روز دیکھنا پڑے گا اور سننا بھی کیونکہ وہ چپ رہنے والوں میں نہیں۔ ورنہ محبوبہ مفتی یا فاروق عبداللہ تو ہیں ہی روایتی بھارتی ایجنٹ انہوں نے پہلے کیا کیا کہ اب کریں گے۔
٭٭٭٭٭
حماس یرغمالی رہا کر دے تو اسرائیل کو رفح پر حملے سے روکیں گے۔ صدر جوبائیڈن 
جھگڑا نمٹانے کے لیے یہ اچھی منطق عالمی ماما نمبر ون امریکہ نے دی ہے۔ بدمعاشی کرنے والے کو روکنے کی بجائے مظلوم کو کہا جا رہا ہے کہ پہلے بدمعاش کا مطالبہ پورا کرو پھر ہم لڑائی بند کرائیں گے۔ ایسا منصفانہ فیصلے کرنے والے کوئی 21 توپوں کے ساتھ باندھ کر سلامی دیتے ہوئے اڑانے کا جی چاہتا ہے۔ اپنے پالتو غنڈے کے لیے اس سے زیادہ اچھا اور رحمدلانہ فیصلہ اور تو ہو ہی نہیں سکتا۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے گزشتہ روز اپنے ایک خطاب میں یہ انوکھی منطق پیش کی جب ان سے کہا گیا کہ جناب روکنے کے باوجود اسرائیل غزہ کے بعد رفح کو نشانہ بنا رہا ہے۔ وہاں شہری آبادی پر بمباری کر رہا ہے۔ اسے جنگ بندی پر مجبور کیا جائے۔ اس پر کمال بے نیازی سے امریکی صدر نے یہ جواب دیا اور کہا کہ اگر پھر بھی اسرائیل نہ مانا تو اسے ہتھیاروں کی فراہمی روک دیں گے۔ یعنی سارا زور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر رہا اور رفح پر حملے بند کرنے کا کوئی پلان نہیں۔ اب اس بات کی گارنٹی کون دے کہ یرغمالیوں کے رہا ہونے کے بعد اگر اسرائیل حسب سابق مکر گیا جنگ بندی سے تو پھر کیا ہو گا۔ 
پہلے اسرائیل نے کہا تھا غزہ کے بعد رفح پر حملہ نہیں کرے گا مگر دنیا دیکھ رہی ہے کہ اب اسرائیلی درندے رفح کو کھنڈرات کے ڈھیر میں تبدیل کر رہے ہیں۔ کوئی روکنے والا نہیں۔ 
اب تو خیر سے فلسطین اقوام متحدہ کا ممبر بھی بن چکا ہے۔ کیا اقوام متحدہ اپنے اس نومولود ممبر کو بچانے کیلئے اسرائیلی درندوں کو روک پائے گا۔ ایسا ہو نہیں سکتا۔ اگر اقوام متحدہ کچھ کرنے کے قابل ہوتی تو کم از کم مسئلہ کشمیر ہی کب کا حل ہو چکا ہوتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ یہ دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔ کمزور کے لیے یہاں قدم قدم پر مسائل کے پہاڑ کھڑے ہوتے ہیں۔ 
٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن