عادل راجہ کون ہے؟
پروپیگنڈہ کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک مثبت، دوسرا منفی۔ یہ اب پروپیگنڈہ کرنے والے پر منحصر ہے کہ پروپیگنڈہ کو کس مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یقینی طور پر پروپیگنڈہ کے اذہان پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ جلدی زائل بھی نہیں ہوتے۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا ایک دوسرے کے حریف متحارب فریق، ان کے مابین جب پروپیگنڈہ مہم چلتی ہے تو رکنے کا نام نہیں لیتی۔ ہر کوئی دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتا ہے اور ہر حد پار کر لی جاتی ہے۔ چاہے اُس کے کچھ بھی اثرات ہوں۔ کچھ لوگ رقابت میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ کسی حد کا بھی خیال نہیں رکھتے۔ بلاشبہ ایسے لوگ ناپسندیدہ اور قابل تعزیر ہیں۔
پروپیگنڈہ انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ عام بول چال میں اس لفظ کے معنی دروغ گوئی کے ہیں۔ پروپیگنڈے کو ترغیب و تحریص یا کسی افواہ کو پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ افواہ کی توجیہہ یہ ہے کہ یہ ایک سے دوسرے شخص تک گشت کرتی ہے۔ یہ کسی چیز، واقعے یا عوامی دلچسپی کے موضوع سے متعلق ہو سکتی ہے۔ سماجی علوم کے تناظر میں کسی افواہ میں ایسا کوئی بیان جڑا ہوتا ہے۔ جس کی صداقت کی فوری تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ غیر مستند اڑتی ہوئی خبر یا کسی غیر حقیقی بات کو پھیلانا درحقیقت پروپیگنڈہ ہے۔ جس کا ایشیائی ملکوں میں ہی نہیں، مغربی دنیا میں بھی بڑی تیزی سے استعمال ہو رہا ہے۔
اخبارات، ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پروپیگنڈہ کے اہم جز و اور ذرائع ہیں۔ جب سے سوشل میڈیا نے رواج پایا ہے، ہر شخص کی جھوٹی خبر یا افواہ کو پھیلانے پر دسترس ہو گئی ہے۔ کوئی بھی یوٹیوبر کوئی بھی پروپیگنڈہ کر سکتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارم بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر ناپسندیدہ مواد اور قابل اعتراض پروگراموں کی سرکوبی کے لیے سائبر کرائم انویسٹی گیشن ونگ ایف آئی اے میں متحرک اور سرگرم ہے۔ لیکن اس ونگ کے خاطر خواہ نتائج آج تک سامنے نہیں آ سکے۔ ٹھوس شواہد کی دستیابی کے باوجود شرپسند عناصر تک پہنچنا، انہیں پکڑنا شاید اتنا آسان نہیں ، جو لوگ ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں، لندن، دبئی کے مکین ہیں۔ وہ کسی ڈر یا خوف کے بغیر سوشل میڈیا کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں ایک نام عادل راجہ کا بھی ہے جو فوج کا ایک ریٹارئرڈ میجر ہے۔ پاکستان سے نقل مکانی کر کے کافی عرصہ سے لندن کا مکین ہے۔ وہاں بیٹھ کر 24گھنٹے پاکستانی فوج مخالف مذموم سرگرمیوں میں مصروف رہتا ہے۔ عادل راجہ کس کا آلہ کار ہے؟ کس کے ایماءپر یہ سب کچھ کرتا ہے؟ فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے؟ ان سارے سوالوں کے جواب ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں۔ آئی ایس آئی نے عادل راجہ پر بہت کام کیا ہے۔ کیپٹن (ر) حیدر رضا مہدی بھی عادل راجہ کے ساتھیوں میں شامل ہے۔ جو سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائے ہوئے ہے۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے، ان دونوں ریٹائرڈ افسران یعنی میجر عادل فاروق راجہ اور کیپٹن حیدر رضا مہدی پر فوجی اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کا الزام ہے۔ اس الزام کو لے کر دونوں افسران کے خلاف اُن کی عدم موجودگی میں فیلڈ کورٹ مارشل کیا گیا۔ جس کے تحت نہ صرف ان کو سزائیں سنائی گئیں بلکہ ان کے رینک بھی ضبط کئے گئے ہیں۔ دونوں ریٹائرڈ افسران کو فوجی عدالت نے طلبی کے کئی نوٹس بھیجے لیکن طلبی کے باوجود عادل فاروق راجہ اور حیدر رضا مہدی عدالت میں حاضر نہ ہوئے۔ جس کے بعد فوجی عدالت نے عادل راجہ کو 14سال قید بامشقت اور حیدر رضا مہدی کو 12سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ دونوں افسران کو یہ سزائیں آرمی ایکٹ 1952ءکے تحت سنائی گئی ہیں۔ دونوں افسران کو پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کا بھرپور حامی سمجھا جاتا ہے۔ دونوں افسران سابق حکومت کے خاتمے پر برطانیہ چلے گئے تھے ۔ تب سے وہیں مقیم ہیں اور پاکستانی فوج مخالف سرگرمیوں میںملوث پائے گئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق دونوں سابق افسران کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت حاضر سروس اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت سزائیں سنائی گئی ہیں۔ تاہم عدم دستیابی پر انہیں اشتہاری بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ دونوں ریٹائرڈ افسران کے خلاف سات اور نو اکتوبر 2023ءکو عدالتی کارروائی کے بعد یہ سزائیں سنائی گئیں۔ دونوں افسران کے رینک بھی 21نومبر 2023ءکو ضبط کر لئے گئے۔ عادل فاروق راجہ اور حیدر رضا مہدی کے خلاف ریاست کے مفادات کے خلاف منفی سرگرمیوں کی دفعات کے تحت تھانہ اسلام آباد میں بھی مقدمات درج ہیں۔ پولیس نے ان مقدمات میں عدم دستیابی پر دونوں ملزمان کو اشتہاری قرار دے دیا ہے۔
عادل فاروق راجہ نے برطانیہ میں رہتے ہوئے پاکستان کی موجودہ سیاسی و عسکری قیادت پر بھرپور تنقید کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ وہ اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے خصوصی طور پر پاکستانی عسکری ادارے کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلائے ہوئے تھا۔فوجی عدالت سے سزاﺅں کے بعد بھی اشتہاری میجر اور کیپٹن کی فوج مخالف پروپیگنڈہ مہم میں کوئی کمی نہیں آئی۔
پاکستان آرمی ایکٹ 1952 ءکے تحت دونوں سزا پانے والے ریٹائرڈ افسران ایک دن ضرور پابندِ سلاسل ہوں گے اور انصاف کے کٹہرے میں کھڑے کئے جائیں گے۔ پاکستان آرمی ایکٹ ہے کیا! آئیے، اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس ایکٹ کے تحت ٹرائل اس صورت میں ہوتا ہے جب ان جرائم کا ارتکاب فوجی اہلکار کرے۔ تاہم اس ایکٹ کے اطلاق کے حوالے سے کچھ شقوں میں یہ قانون بعض صورتوں میں عام شہریوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
فوجی ایکٹ کے تحت کارروائی کی صورت میں ملزم کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائی کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کہا جاتا ہے۔ اور یہ فوجی عدالت جی ایچ کیوکی زیر نگرانی کام کرتی ہے۔ عادل راجہ ایسا گھناﺅنا کردار ہے جس نے اپنے یوٹیوب چینل پر فوج کے خلاف نفرت پھیلائی۔ کافی گھٹیا اور نازیبا باتیں کیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بلاگز اور سوشل میڈیا پوسٹوں کی وجہ سے سرخیوں میں رہتا ہے۔ وہ مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس پر بہت سرگرم ہے۔ عمران خان کا بھرپور حامی ہے۔ وہ گزشتہ سال اپریل کے مہینے لندن گیا جہاں اپنا یوٹیوب چینل قائم کر کے بعض فوجی افسران پر” حکومت کی تبدیلی “ کی سازش کے سنگین الزامات لگائے۔ عادل راجہ کی مذموم سرگرمیاں حکومت اور فوج مخالف پروپیگنڈہ مہم فوجی عدالت سے آرمی ایکٹ کے تحت سزا کے فیصلے کے بعد بھی جاری ہے جس کے تدارک کے لیے حکومت پاکستان کو برطانوی حکومت کے ارباب اختیار سے ضرور بات کرنی چاہیے۔ عادل راجہ اور حیدر رضا مہدی جیسے لوگوں کو اگر بیرون ملک سے پاکستان نہ لایا گیا اور پابند سلاسل نہ کیا گیا تو دوسرے کئی اور فوج مخالف عادل راجہ اور رضا مہدی پیدا ہو سکتے ہیں۔
بھارت کا ایک ریٹائرڈ میجر گوروآریا بھی عادل راجہ کی تقلید میں پاکستانی فوج کے خلاف بہت زیادہ دشنام طرازی کر رہا ہے ، اس کے سدباب اور سخت جواب کے لئے پاکستانی ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کو بہت متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جس طرح کی بھارتی میجر اور عادل راجہ نے پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلائی ہوئی ہے، ایکشن کے بغیر اس میں کوئی کمی نہیں آ سکے گی۔ پاک فوج کے امیج کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔ اس احتمال سے بچنے کے لیے ہر محاذ پر مو¿ثر کارروائی کی ضرورت ہے۔