• news

عوام معافی چاہتے ہیں

آج کل معافی مانگنے پر بحث چل رہی ہے بہت ساروں نے معافی کو قومی ایشو اور انا کا مسلہ بنا لیا ہے قومی سیاست معافی پر آکر رکی ہوئی ہے ہر کوئی دوسرے سے کہہ رہا ہے وہ اس سے معافی مانگے معافی دو طرح کے حالات میں مانگی جاتی ہے ایک اعلی ظرف کے لوگ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگتے ہیں یہ بڑے دل گردے والے لوگ ہوتے ہیں طاقت اور اختیار رکھتے ہوئے بھی اپنی غلطی کا احساس ہونے پر معافی مانگ کر بڑے پن کا ثبوت دیتے ہیں ایسی معافی معاملات کو دفن کرنے کے لیے ہوتی ہے اور قرئین انصاف ہوتی ہے اس سے قدورتیں ختم ہوتی ہیں اور معافی مانگنے والے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ایسی معافی عام طور پر غیر مشروط ہوتی ہے اس میں دونوں فریقین کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے دوسری معافی مجبور لاچار اور بے بس لوگ مانگتے ہیں اور ان کے پاس جان چھڑوانے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ایسے حالات میں معافی مانگنے والے کی تذلیل مقصود ہوتی ہے اس کے سامنے معافی کے ساتھ ساتھ کڑی شرائط رکھی جاتی ہیں اور پھر معافی کے بعد ان شرائط کو پبلک کرکے اسے زچ کیا جاتا ہے ایسی معافی میں عمومی طور پر غیرت مند آدمی اندر سے ٹوٹ جاتا ہے لیکن بار بار جرم کرنے والے ایسی معافی کو پارٹ آف گیم سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں جان چھڑاو عزت تو آنی جانی چیز ہے کل کو دوبارہ ہمارا وقت آئے گا تو ہم بھی کسی سے معافی منگوا کر حساب برابر کر لیں گے ایسے لوگ سمجھتے ہیں وقت ٹپانا چاہیے لوگ وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بھول جاتے ہیں کئی لوگ انا اور ضد کے اتنے پکے ہوتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں جان جاتی ہے تو چلی جائے وہ کسی صورت معافی نہیں مانگیں گے۔ ایسے لوگ ٹیپو سلطان کے پیروکار ہوتے ہیں وہ ان کے مقولے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے پر عمل پیرا ہوتے ہیں جبکہ جان چھڑوانے والے یہ جان کر کہ گیدڑ کی سوسالہ زندگی شیر کی ایک دن کی زندگی سے ہزار درجہ بہتر ہے۔
 ہزار بار معافی مانگنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ زندہ رہے تو ہم پھر ایسے مواقع پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس میں ہم معافی منگوانے والوں سے بدلہ لے سکیں یہ بحث بہت طویل ہو سکتی ہے کہ ان میں سے کون کس کیٹگری میں فعال کرتا ہے اور کون کس سے معافی کا طلبگار ہے یا کون کس معافی کا حق دار ہے کس کو کس سے معافی مانگنی چاہیے بلکہ کس کس کو معافی مانگنی چاہیے یہ بحث لمبی ہو جائے گی بہت سارے لوگ ناراض ہو جائیں گے بہت ساروں کی طبعیت پر ناگوار گزرے گی لیکن ایک بات واضح ہے کہ ہم حالات کو جس نہج پر لے گئے ہیں اس کا واحد حل معافی تلافی کرکے آگے بڑھنا ہے کیونکہ معافی کے بغیر معاملات آگے بڑھتے نظر نہیں آ رہے۔ ملک جمود کا شکار ہے ملک کا کاروبار جام ہے غیر یقینی چھٹنے کا نام نہیں لے رہی قوم کو ڈیڈ لاک جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے قوم کی بیزاری بڑھتی جا رہی ہے اس سے پہلے کہ یہ حالات کچھ اور رخ اختیار کر جائیں سٹیک ہولڈرز کو اپنے مسائل حل کرنے کی بجائے قوم کے مسائل کے حل کی طرف آنا ہو گا آزاد کشمیر میں ہم اس کا ٹریلر دیکھ چکے قوم کا مزاج چڑچڑا ہوتا جا رہا ہے لوگ اس حد تک بیزار ہو رہے ہیں کہ وہ اب نہ کسی کی بات سننا چاہ رہے ہیں اور نہ ہی کسی کی بات برداشت کر پا رہے ہیں انتظامیہ اور پولیس بہت زیادہ ڈمیج ہو چکی ہے لوگ انھیں نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ان کو عوامی سہولت کار بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا وقت بہت تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے سسٹم کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے خدارا اس کو محسوس کریں قوم تمام سٹیک ہولڈرز سے معافی کی طلبگار ہے آپ بےشک ایک دوسرے سے معافی نہ مانگیں لیکن عوام کو معاف کر دیں خدارا عوام کی حالت پر رحم کریں عوام آپ سے معافی چاہتے ہیں خدارا آگے بڑھیں معاملات کو سلجھانے کی کوشش کریں تمام سٹیک ہولڈرز ظرف کا مظاہرہ کریں قوم پر رحم کریں ایک دوسرے کو طاقت دکھانے کی بجائے تعاون کی طرف آئیں یہ ملک قومی اتفاق رائے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے جلدی کر لیں جو کرنا ہے عوام سے اب مزید صبر نہیں ہو پا رہا اگر اتفاق رائے پیدا کیا گیا تو تاریخ آپ کو معاملہ فہم قرار دے گی ورنہ تاریخ نے جو حشر کرنا ہے آپ سوچ لیں۔

ای پیپر-دی نیشن