اسٹیبلشمنٹ کو برا بھلا کہنا بیرونی سازش، عدلیہ کو ٹھیک ہونا پڑے گا: گورنر سندھ
اسلام آباد؍ کراچی ( وقائع نگار +آئی این پی+ نوائے وقت رپورٹ+ نمائندہ نوائے وقت) گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ وزیراعظم، آرمی چیف، ایس آئی ایف سی سب معاشی بحران ختم کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔ جب حکومت میں ہوتے ہیں تو اچھا کہتے ہیں نہیں ہوتے تو برا کہتے ہیں۔ جو اسٹیبلشمنٹ کو برا کہہ رہے اس کے اثاثے چیک کریں، ان میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے۔ جس طرح آج کل فیصلے آ رہے ہیں اس سے قوم پریشان ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلا کر معاملات کو دیکھا جائے۔ اسٹیبشلمنٹ کو برا بھلا کہنے میں بیرونی سازش ہوتی ہے۔ جس کی مرضی ہوتی ہے اپنے سر سے اتار کر اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیتا ہے۔ آج سیاہ دن ہے کہ ایسے فیصلے آئے۔ فیصلے ان کے حق میں آئے جنہیں امید بھی نہیں تھی۔ جس کا جی چاہتا ہے اسٹیبلشمنٹ اور افواج پاکستان پر الزام لگا دیتا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل دیکھے کہ ہائیکورٹ کے ججز خط کیوں لکھ رہے ہیں۔ بھٹو کا فیصلہ 30 سال بعد سپریم کورٹ نے بدلا۔ اسی طرح ثاقب نثار کا فیصلہ تھا، ان فیصلوں پر آج بات کیوں ہو رہی ہے؟۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلاکر ان ساری چیزوں کو سامنے رکھنا چاہئے۔ عدلیہ کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ لاڈلوں کے فیصلے گھنٹوں میں آ رہے ہیں اور غریبوں، عوام کے فیصلے نہیں آ رہے۔ سیاسی جماعتیں تو عوامی نمائندوں کے طور پر آواز اٹھا رہی ہیں۔ پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ بارز کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ یہی وکلاء ہیں جو آنے والے وقت میں جج بنتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھٹو کیس میں غلطی کو مانا ہے۔ کیا یہ فیصلے کسی جھکاؤ کی وجہ سے ہیں؟۔ تعین عدالتیں کریں گی۔ موڈ بدلا، ہوا بدلی، فیصلے بدل گئے، عدلیہ کو خبروں کی زینت نہیں ہونا چائے۔ پاکستان میں سارے نظام کو ٹھیک کرنے کیلئے عدلیہ کو ٹھیک ہونا پڑے گا۔ ملک میں سعودی سرمایہ کاری آ رہی ہے اور آج ہی ایک لیڈر کہتے ہیں نیا الیکشن کراؤ۔ وقت آ گیا ہے ابھی نہیں تو کبھی نہیں، جو کرنا ہے ابھی کر ڈالو۔ سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ جسٹس بابر ستار کو ایک سال بعد باتیں یاد آرہی ہیں، ہماری ماں کو جب سوشل میڈیا کے ٹرولز غلاظت بک رہے تھے تو اس پر بھی نوٹس لیا جانا چاہیے تھا۔ سستی روٹی، غریب کے لیے کوئی سٹے آرڈر ہوا؟ نسلہ ٹاور کے متاثرین کے لیے کچھ ہوا؟۔ 40 سال پہلے بھٹو صاحب کو علامتی سزا دی گئی آپ ہمیں بتا رہے ہیں، یہ ہمیں پہلے سے ہی پتا تھا۔ نواز شریف کو پیسے نہ لینے پر نا اہل کردیا گیا پر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بابر ستار کہتے ہیں کہ جج بننے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ بھیجی، ہم نے کہا کہ اس کے حوالے سے ریکارڈ روم کے اندر کوئی چیز ہوگی، تحریری طور پر، لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں مل رہا۔ اب پھر مداخلت ہوئی پرسوں تو الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا، اب آپ کو ثبوت دینے پڑیں گے کہ کس نے مداخلت کی، کیوں کی اور اس کے شواہد دیں، تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، ورنہ تو میں بھی فون اٹھا کے کہوں کہ جج نے کہہ دیا ہے کہ قتل کردو تو اس کا ٹرائل تھوڑی ہوجائے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بہت اچھی بات کی، خود احتسابی کی بات کی تو اس پر ہمیں خوش ہونا چاہیے لیکن ایک تنائو ہے جس کے تحت بار بار انٹیلیجنس اداروں کا نام لیا جا رہا ہے تو شواہد دیں، اور اگر جو آپ نے بتایا وہ زبانی ہے تحریری نہیں ہے تو پھر تو مسئلہ ہے، اگر قانون ساز کوئی دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج دوہری شہریت کے ساتھ کیسے بیٹھے ہیں؟۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر طلال چودھری نے کہا کہ جج خط نہیںلکھتا بلکہ نوٹس جاری کرتا ہے، عدلیہ کو تمام پریشر سے آزاد ہونا چاہیے، دبائو برداشت نہ کرسکنے والا انصاف کی کرسی پر کیسے بیٹھ سکتا ہے، عام آدمی کو عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا وہ کس کو خط لکھے؟۔ توہین عدالت پر وزیراعظم سے لے کر رکن اسمبلی تک نااہل ہوسکتا ہے مگر توہین پارلیمنٹ پر کسی جج کو پارلیمنٹ نہیں بلایا جاسکتا، نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے طلال چودھری نے کہا نان ایشو کو ایشو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، ضلعی عدلیہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو لیٹر لکھا ہے، اگر کسی خط کا نوٹس ہونا چاہئے تو پہلے ضلعی عدلیہ پر ہونا چاہئے، یہ پارلیمنٹ، سیاست دانوں کی بھی ناکامی ہے، عدلیہ کو بہتر بنانے میں پارلیمان کو اپنا رول ادا کرنا چاہئے تھا، آرٹیکل 62،63 پر پورا نہ اترنے والے ہی فیصلے کر رہے ہیں۔سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ اب الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا، آئین اور قانون میں کہاں لکھا ہے بارڈرز پر فوجی اور پولیس والے اپنی جانیں دیں گے، بار بار انٹیلی جنس اداروں کا نام لیا جا رہا ہے۔ اب اگر کوئی پگڑی اچھالے گا تو اس کی پگڑی کا فٹ بال بنائیں گے، مداخلت کے شواہد لے آئیں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ کراچی میں زیادتی پر بھی کاش نوٹس لیا جاتا، بھٹو صاحب کے معاملے پر کیا اور کسی کو سزا ہوئی۔ زرداری صاحب کو 14 سال سزا ہوئی کوئی پوچھنے والا نہیں، آئین و قانون میں کہاں لکھا ہے کہ جنہوں نے قربانی دی ان کا تمسخر اڑایا جائے۔ سوشل میڈیا پر قدغن لگائیں، سب کچھ کریں لیکن اپنی ذات کیلئے نہیں پورے پاکستان کیلئے کریں، اگر ممبر اسمبلی دْہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج کیسے رکھ سکتا ہے، امید کر رہا ہوں جواب جلد آئے گا۔