اپوزیشن جانتی اسے کس کے پاؤں پکڑنے ہیں، اس لئے مذاکرات نہیں چاہتی: بلاول
اسلام آباد ( وقائع نگار) چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بدھ کے روز قومی اسمبلی میں صدر کے خطاب پر اپنی تقریر میں کہا ہے کہ صدر زرداری نے اپنی تقریر میں کوئی ذاتی یا سیاسی بیان نہیں دیا۔ صدر زرداری نے اتحاد، ملکر کام کرنے اور ڈائیلاگ کی بات کی۔ صدر زرداری کو احساس ہے کہ عوام کے حقیقی مسائل جیسے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا مقابلہ صرف گفتگو اور سیاسی عمل سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر کی ایک گھنٹہ طویل تقریر انکے ساتھیوں اور رہنما کی جانب سے رونے پر مشتمل تھی۔ پیپلز پارٹی نے نہ صرف صوبے کے تقریباً تمام بڑے شہروں بلکہ گمبٹ، خیرپور جیسے دور افتادہ علاقوں میں دل کی بیماریوں کے علاج کے لیے مفت ہسپتال قائم کیے ہیں۔ پی ٹی آئی اور اسکی حکومت کو سندھ آنے اور صحت کی سہولیات کا دورہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ انہیں یہ سکھایا جاسکے کہ مفت اور معیاری علاج فراہم کرنے والے ادارے کیسے بنائے جائیں۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ وہ باقی صوبوں کو مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ وہ سندھ کے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل پر عمل کریں اور اپنے اداروں کی نجکاری نہ کریں۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ صدر زرداری کی تقریر میں کشمیر اور فلسطین کا ذکر بھی تھا واضح موقف پیش کیا۔ چیئرمین بلاول نے کہا اپوزیشن کے رویے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر کی صورتحال کا بروقت نوٹس لینے پر صدر زرداری، فراخدلی سے رقم مختص کرنے پر موجودہ حکومت کے شکر گزار ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر کشمیر ملک کی شہ رگ ہے تو کسان معیشت کی شہ رگ ہیں۔ عبوری وفاقی حکومت کی طرف سے پاکستانی عوام کا پیسہ گندم کی درآمد پر خرچ کرنے کا فیصلہ تباہ کن نتائج کا باعث بنا ہے۔ حکومت وقت اگر ملک، اس کی صنعتوں اور کاشتکاروں کو خوشحال دیکھنا چاہتی ہے تو ’کمیٹی کمیٹی‘ کھیلنا بند کرے۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ کل نہیں آج ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کو چاہیے کہ اس سکینڈل میں جوبیوروکریٹس اور وزراء ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ حکومت اپنی غلطی تسلیم کرے۔آج ہمیں پیداوار کو ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ فلسطین میں ہمارے ساتھی مسلمانوں کی مدد کر سکتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کاشتکار اگلے سال پیداوار کم کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ موجودہ بجٹ میں گندم کی فصل کے لیے اپنی امدادی قیمت کا اعلان کرے۔کسان کارڈ کا اعلان کیا جائے اور کھاد کمپنیوں کو دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی کو روکا جائے۔بڑی کمپنیوں یا زمینداروں کو نہیں بلکہ چھوٹے کاشتکاروں کو سبسڈی دینی چاہیے۔ اپوزیشن صرف فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کرنا چاہتی ہے۔ لاول نے اپنی تقریر میں پی ٹی ا?ئی پر شدید تنقید کی، اپوزیشن لیڈر اور عمران خان پر بھی تنقید کی جس سے اپوزیشن ارکان بھڑک اٹھے اور شور شرابہ شروع کردیا، بلاول نے اسپیکر سے کہا کہ میں انہیں نظرانداز کررہا ہوں آپ بھی انہیں چھوڑ دیں۔بلاول نے پی ٹی آئی کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی، انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی موجود ہے مگر اپوزیشن جانتی ہے اسے کس کے پاؤں پکڑنے ہیں اس لیے وہ سیاست دانوں سے بات نہیں کرنا چاہتی، اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کے پاؤں پکڑ کر خود ہی مداخلت کی دعوت دے رہی ہے، یہ لوگ بات حقیقی آزادی کی کرتے ہیں اور مطالبہ پاؤں پکڑنے کا کرتے ہیں۔ وہ انہی قوتوں کی طرف سے مداخلت پر مجبور کر رہے ہیں جن سے وہ لڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ تاہم وہ صرف ایک ڈرامہ رچانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پہلے بزدار کو پنجاب کا تحفہ دیا اور اب چاہتے ہیں کہ ایسا وزیراعلیٰ لگا کر خیبرپختونخوا کو بھی اسی طرح نقصان اٹھانا پڑے۔ وہ صرف گورنر کے پی کے خلاف بیانات دے سکتے ہیں۔ اگر وہ 9 مئی کو معافی مانگنے پر آمادہ نہ ہوئے تو یہ شور و غل جاری رہے گا۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ 9 مئی احتجاج نہیں بلکہ حکومت اور عسکری قیادت کے خلاف بغاوت تھی۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ نیب کے ہاتھوں گرفتار ہونے اور جیل میں محض ایک رات گزارنے پر ان کا نام نہاد لیڈر اس قدر بوکھلا گیا کہ اس نے اپنے کارکنوںکو فوجی تنصیبات اورشہداء کی یادگاروں پر حملے کی ہدایت کی۔ یہ دہشت گردی تھی۔ ان کا لیڈر رو رہا ہے کہ جیل سے رہا کیا جائے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو جیل میں ایک رات بھی نہ گزار سکے اور پاکستان سے بغاوت کا اعلان کر دیا۔بلاول نے اپنی تقریر میں پی ٹی آئی ، اپوزیشن لیڈر اور عمران خان پر شدید تنقید کی جس سے اپوزیشن ارکان بھڑک اٹھے اور شور شرابہ شروع کردیا۔