پارلیمنٹ کی ’’اجنبی‘‘عمارت
پارلیمان میں ہوئی کارروائی کے براہِ راست مشاہدے کے بعد تبصرہ آرائی میرے لئے پہلی محبت کی مانند ہے۔ اس کے بغیر خود کو ’’صحافی‘‘ کہلوانے میں بہت شرمندگی ہوتی ہے۔ اسی باعث کرونا کے دنوں میں بھی ’’پندار کے صنم کدے‘‘کو بقول غالب ویران کئے ہوئے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس میں جاتا ر ہا ہوں۔ وہاں باقاعدگی سے جانے کی بدولت ہی میں نے دیگر کئی ساتھیوں سے بہت پہلے بھانپ لیا کہ عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاری ہورہی ہے۔ نوائے وقت کے لئے لکھے اس کالم کے علاوہ ہمارے ’’دی نیشن‘‘ کیلئے لکھی پریس گیلری میں البتہ تواتر سے خبردار کرنا شروع ہوگیا کہ عمران حکومت کو اس کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل محلاتی سازشوں کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا تو معاملات سنبھل نہیں پائیں گے۔وہ تحریک مگر پیش ہونے کے بعد کامیاب بھی ہوگئی اور اس کی وجہ سے وطن عزیز آج بھی 8فروری کے عام انتخابات ہوجانے کے باوجود سیاسی عدم استحکام کی لپیٹ میں ہے۔
عمران حکومت کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فراغت نے جو ہیجان برپا کیا تھا اس نے مجھے ایک رپورٹر کی محدودات بلکہ عام زبان میں کہیں تو ’’اوقات‘‘ دریافت کرنے کو مجبور کردیا۔ جی کو یہ خیال ستانے لگا کہ اگر دو ٹکے کے رپورٹر کی غیر جانب دارانہ مشاہدے کے بعد بنائی دیانتدارانہ رائے پر سیاستدان غور کرنے کو آمادہ ہی نہیں تو دنیا کا ہر کام چھوڑ کر عمر کے آخری حصے میں روزانہ پارلیمان جانے کی تکلیف کیوں اٹھا?ں۔ ابھی اس سوال کے بارے میں کوئی فیصلہ ہی نہیں کرپایا تھا تو میری بائیں آنکھ موتیا کی زد میں آگئی۔ کمر کے درد نے پہلے ہی ڈرائیونگ کے ناقابل بنارکھا تھا۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجانے کے بعد شہبازشریف کی قیادت میں مختلف الخیال جماعتوں پر مشتمل جو حکومت بنی اسے میں ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ پکارتا رہا۔ پارلیمان سے رجوع کرنے کی انہیں عادت نہیں تھی۔ محض رسمِ دنیا نبھانے کے لئے اس کے اجلاس منعقد کرتے رہے اور یہ اجلاس بھی عموماََ شام میں بہت دیر سے شروع ہوتے اور میرے لئے سورج ڈھلنے کے بعد خود گاڑی چلانا تقریباََ ناممکن ہوچکا ہے۔ بادل نخواستہ ’’دی نیشن‘‘ کے لئے پریس گیلری لکھنا چھوڑدی۔ اس کے باوجود اکثر جی چاہتا کہ سب کچھ چھوڑ کر دوبارہ یہ کالم لکھنا شروع کردوں۔
اسی ارادے کے ساتھ کوشش کررہا ہوں کہ پریس گیلری لکھنے سے قبل پارلیمان ہائوس میں جانے کی عادت اپنائی جائے۔ اگر وہاں قومی اسمبلی یا سینٹ کے اجلاس دن میں ہوں تو مجھے ڈرائیور کی سہولت میسر ہوسکتی ہے۔بہرحال اپنے ارادے پر عمل پیرائی کے امکانات کا جائزہ لینے پیر کی شام قومی اسمبلی چلا گیا۔ اس عمارت میں تقریباََ ایک برس کے وقفے کے بعد جانا ہوا تو ماحول قطعاََ اجنبی محسوس ہوا۔ جنرل ضیاء کے لگائے مارشل لاء کے 8برس گزرجانے کے بعد ’’غیر جماعتی بنیادوں‘‘ پر ہوئے انتخابات کے نتیجے میں 1985ء کے برس قومی اسمبلی بحال ہوئی تھی۔ میں اس کے پہلے اجلاس سے گزرے برس کی پہلی سہ ماہی تک سینٹ اور قومی اسمبلی کے ہر اجلاس کا پریس گیلری میں بیٹھ کر مشاہدہ کرتا رہا ہوں۔ گزرے پیر کی شام وہاں بیٹھا تو یہ احساس مسلط رہا کہ کسی اور جگہ آبیٹھا ہوں۔
پارلیمان کی عمارت میں داخلے کیلئے صحافی عموماََ گیٹ نمبر5کہلاتے دروازے سے داخل ہوتے ہیں۔سکیورٹی کے مراحل سے گزرکر آپ بائیں ہاتھ مڑ کر پارلیمان کی عمارت میں داخل ہوجاتے ہیں۔وہاں مڑتے ہی پہلے ہاتھ جو کمرہ آتا ہے وہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کیلئے 2018ء سے مختص رہا ہے۔ ایک جماعت اور بعدازاں وزارت خارجہ کی سربراہی انہیں یہ کمرہ دلوانے کا سبب ہوئی۔ پارلیمان کے اجلاس کے دوران رپورٹروں کا ہجوم اس کمرے کے دروازے کے باہر براجمان رہتا ہے۔ وہاں کھڑے رپورٹروں کی خواہش ہوتی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری جب کمرے سے نکلیں تو ان سے 24/7چینلوں کیلئے کوئی چوندے چوندے فقرے نکلوالئے جائیں۔
پیر کی شام مگر وہاں کوئی موجود ہی نہیں تھا۔ کمرے کے دروازے کے باہر بلاول بھٹو زرداری کے نام کی تختی بھی نہیں لگی تھی۔ میں نے سوچا شاید یہ کمرہ ان سے ’’چھن‘‘ گیا ہے۔ اس کے اندر داخل ہونے کے بعد مگر علم ہوا کہ وہ بدستور اسی کمرے میں بیٹھتے ہیں۔ پیر کے دن مگر اسلام آبا د میں موجود نہیں تھے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا ارادہ بھی نہیں تھا۔ ان کی عدم موجودگی میں ان کے لئے مختص کمرے کی جھاڑپونچھ اور صفائی ستھرائی ہورہی تھی۔
صحافیوں کے لئے مختص ’’پریس گیلری‘‘ پارلیمان ہائوس کی تیسری منزل پر واقع ہے۔وہاں تک پہنچنے کے لئے لفٹ کے بجائے سڑھیاں استعمال کرتا ہوں۔اس عمر میں بھی سیڑھیوں کو ترجیح دینے کی واحد وجہ رپورٹر کی خود غرضی ہے۔ امید ہوتی ہے کہ پہلی منزل سے تیسری منزل تک جاتے ہوئے راہداریوں میں حکومت یا اپوزیشن کا کوئی اہم نمائندہ مل جائے تو اس کے ساتھ سرگوشیوں میں کوئی خبر مل سکتی ہے۔
’’یوٹیوب‘‘ متعارف ہوجانے کے بعد سے مگر اب قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت پارلیمان کی راہداریوں سے کنی کترانا شروع ہوگئی ہے۔انہیں یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ راستے میں کوئی یوٹیوبر انہیں روک کر چبھتے سوالوں کے ذریعے سنسنی خیز وڈیو بنانے کی کوشش کرے گا۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں داخلے کیلئے دوسری منزل پر مختص دروازوں کے باہر لیکن ’’مہمانوں‘‘ کا ہجوم تھا۔ قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھنے کو ’’مہمانوں‘‘ کا ایسا ہجوم میں نے 1985ء سے آج تک نہیں دیکھا تھا سوائے ان دنوں کے جب انتخابات ہوجانے کے بعد نئی اسمبلی کے اراکین نے حلف اٹھانا ہو یا جس دن وزیر اعظم نے منتخب ہونا ہو۔
’’مہمانوں‘‘ کا نمایاں ہجوم دیکھ کر میں حیران ہوا۔ وسوسوں بھرے دل نے طے کرلیا کہ ’’مہمانوں‘‘ کا یہ ہجوم ’’پارلیمانی جمہوریت‘‘ کے عشق میں جمع نہیں ہوا۔ اس کا مقصد کچھ اور ہے۔ پریس گیلری میں بیٹھتے ہی ’’مقصد‘‘ واضح ہوگیا۔ عمر ایوب خان نے بطور اپوزیشن لیڈر صدر کے پارلیمان سے خطاب کے بارے میں عام بحث کا آغاز کیا۔ قائد حزب اختلاف کو اس بحث کے آغاز کا حق میسر ہے۔ اس کے علاوہ یہ حق بھی کہ وہ زیر بحث موضوع پر جتنی دیر چاہے تقریر کرسکتا ہے۔ عمر ایوب خان نے خود کو میسر اس حق کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ان کی تقریر کے دوران مہمانوں کی گیلری میں بیٹھے کئی افراد نے عمر ایوب کی داد وتحسین کیلئے نعرے بلند کئے اور میرا جی گھبراگیا۔
نہایت اعتماد سے عمر ایوب خان سے پوچھے بغیر دعویٰ کررہا ہوں کہ ان کی تقریر کی ’’مہمانوں کی گیلری‘‘ میں بیٹھ کر دادوتحسین کرنے والے لوگ قائد حزب اختلاف نے جمع نہیں کئے تھے۔ عمر ایوب ان دنوں صحافیوں کی اکثریت کو بہت ’’جارحانہ‘‘ نظرآرہے ہیں۔ ’’جارحانہ‘‘ انداز اختیار کئے رکھنا مگر تحریک انصاف کی اجتماعی مجبوری ہے۔ ’’دھول دھپا‘‘ اگرچہ اس کا مقصد نہیں۔عمر ایوب کے والد بھی قومی اسمبلی کے رکن اور بعدازاں سپیکر ہوتے ہوئے بہت جارحانہ رویہ اختیارکئے رہتے تھے۔ عام زندگی میں لیکن وہ بہت ملنسار، خوش اخلاق اور مہذب رکھ رکھائو والی شخصیت تھے۔ عمر ایوب بھی میری دانست میں اپنے والد جیسے ہیں۔
تحریک انصاف کے اراکین اور گیلری میں بیٹھے ان کے مداح ’’مہمانوں‘‘ کو مگر یاد نہ رہا کہ عمر ایوب کی طولانی اور جارحانہ تقریر کو حکومتی بنچوں پر بیٹھے اراکین نے نہایت صبر وتحمل سے سنا تھا۔ اس تقریر کا جواب دینے خواجہ صاحب کھڑے ہوئے تو ان پر آوازیں کسنا شروع ہوگئے۔ خواجہ صاحب پر آوازیں کسنے کا عمل اگر تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی تک ہی محدود رہتا تو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ چند ’’مہمانوں‘‘ کے جارحانہ رویے نے البتہ مجھے پریشان کردیا۔ خیال آیا کہ اگر حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے مابین کسی روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران توتکار طویل اور تلخ ترین ہونا شروع ہوگئی تو ’’مہمانوں‘‘ میں سے کوئی بھی شخص جذباتی ہوکر ہال میں کودنے کے بعد کسی رکن کاگریبان بآسانی پکڑسکتا ہے۔
انتہائی تجربہ کار رکن پارلیمان ہوتے ہوئے خواجہ آصف کے دل میں بھی ازخود ایسے ہی خدشات ابھرے اور موصوف نے ان کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ہی جماعت کے نامزد کردہ سپیکر سردار ایاز صادق کو ’’مہمانوں کی گیلری‘‘ کو تحریک انصاف کے کارکنوں سے بھردینے کا ذمہ دار بھی ٹھہرادیا۔ طویل وقفے کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس کا مشاہدہ مجھے خواجہ آصف کے دل میں آئے خدشات درست قراردینے کو مجبور کررہا ہے۔اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم کی بنیاد پر پاکستان میں ابھرے سنگین ترین ہیجان کے ہوتے ہوئے قومی اسمبلی کے سپیکر کو ’’مہمانوں‘‘ کی قومی اسمبلی کے ہال کے کناروں پر بنائی ’’مہمانوں کی گیلری‘‘ میں داخلے کے قواعد کو کڑے دل کے ساتھ سخت گیر بنانا ہوگا۔وگرنہ کسی روز کوئی سنگین واقعہ بھی ہوسکتا ہے۔