آزاد کشمیر کیلئے وزیراعظم کا 23 ارب کا پیکیج
آزاد کشمیر گزشتہ دنوں لانگ مارچ،شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام تحریک کے باعث خصوصی توجہ کا مرکز بنا رہا۔اس صورت حال کا جائزہ لینے اور اسکے حل کے لئے وزیراعظم پاکستان نے سٹیک ہولڈرز کی میٹنگ طلب کی جس میں آزاد جموں وکشمیر کی سینئر سیاسی قیادت،حکومت آزاد جموں وکشمیر، وفاقی کابینہ کے متعلقہ اراکین،اٹارنی جنرل، ارکین پارلیمنٹ اور اعلیٰ بیوروکریسی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ نمائندے شامل تھے جبکہ آزاد کشمیر سے چیف سکریٹری اور دیگر ذمہ داران بھی ویڈیو لنک کے ذریعے موجود تھے۔ اس اعلیٰ فورم پر وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر کے مسائل کے حل کے لیے 23 ارب روپے کی خطیر رقم فوری طور پر آزاد کشمیر کو ریلیز کرنے کی منظور دی جس کی اس سے پہلے کوئی مثال ملنا مشکل ہے۔ فورم میں ہی منظوری کا نوٹ منگوایا اور اس پر دستخط کئے۔آزاد کشمیر کی ترقی و خوشحالی کا سہرا پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کو جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے پہلے دور حکومت (2013/18) میں میاں محمد نوازشریف نے ترقیاتی بجٹ کو دوگنا کیا،مالیاتی معاملات اور تیرہویں ترمیم میں آزاد کشمیر کو خود مختار بنایا اور CPEC میں آزاد کشمیر کو شامل کیا۔ یہ بجلی کے تمام منصوبے نوازشریف کے دور حکومت میں منظور ہوئے۔ ایک بڑا منصوبہ مانسہرہ مظفرآباد موٹر وے نواز شریف کے اقتدار سے ہٹنے کے باعث CPEC سے نکالا گیا۔نواز شریف نے لاہور کے بعد، جہاں انکا گھر ہے، سب سے زیادہ آزاد کشمیر کے دورے کئے۔ الغرض نوازشریف اور شہباز شریف کا کشمیر سے ایک خونی رشتہ،جذباتی وابستگی اور اسکی ترقی و خوشحالی سے خصوصی دلچسپی رہی ہے۔ اس وقت بھی یہ شہباز شریف ہی ہیں جنہوں نے ہجیرہ میں کیڈٹ کالج،اور تین دانش سکولوں کی منظوری دی۔
ہڑتالوں کا سلسلہ اگرچہ گزشتہ ایک سال سے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ عرصہ پہلے سے جاری تھا اسکی وجہ پاکستان میں بجلی کے بلوں، ان پر عائد نارروا و ناقابل برداشت ٹیکسوں، گندم/آٹا، اشیائے خورد و نوش اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ تھا۔ چونکہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا بہت بڑا حصہ آزاد کشمیر کی سر زمین پر بننے والے ڈیموں اور پاور سٹیشنوں سے منسلک ہے۔ آئین پاکستان بجلی و گیس کی پیداوار کے سلسلے صوبوں اور ان علاقوں کو اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ ان علاقوں کو اس پیداواری عمل کے منافع و استعمال میں ترجیح حاصل ہوگی، اسی طرح آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کی طرف سے گندم اور آٹے میں سبسڈی دینے کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ جب کبھی پاکستان میں گندم کی پیداوار میں کمی کے باعث قیمتوں میں اضافہ ہوتا اور اس کا اطلاق آزاد کشمیر یا گلگت و بلتستان پر ہو تو ہلکے پھلکے مظاہروں سے قیمتوں میں اضافے کا عمل رک جاتا رہا ہے۔ اس پریکٹس کی وجہ سے جب بھی گندم یا آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہو اس طرح کی تحریکیں مظاہروں سے رک جاتی رہی ہیں۔ بالخصوص گلگت بلتستان جہاں آٹا اور گندم بہت سستے ریٹس پر دستیاب ہے۔ آجکل چونکہ4g/5g کی سہولت کے باعث جو کوئی رعایت مقبوضہ کشمیر میں بھی مل رہی ہوتی ہے وہ بھی یہاں ہمارے ہاں زبان زد عام ہو جاتی ہے۔ دیگر سیاسی فیکٹرز بھی اس طرز کی تحریکوں کو تقویت بخشتے ہیں بالخصوص جب نوجوان بے روزگاری اور عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہوں اور دوسری طرف اشرافیہ مقننہ،انتظامیہ اور عدلیہ کی تعداد، مناصب و پریولیجز/مراعات میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہو۔
جدوجہد میں شامل سب شرکاء خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر،کسی بھی سیاسی وغیر سیاسی پلیٹ فارم سے ہے مبارکباد کے مستحق ہیں، شاباش اور تحسین کے حقدار۔ اور سزاوار شہباز شریف وزیراعظم پاکستان، پاکستان مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی کی کولیشن گورنمنٹ ہے۔ جس نے اتنی خطیر رقم آزاد کشمیر کو درپیش مسائل کے حل کے لئے بجٹ سے ہٹ کر دی ہے حالانکہ یہ مطالبات آزاد کشمیر حکومت کو اپنے بجٹ سے پورے کرنے تھے۔
میں اس موقع پر اس تحریک کے نتیجے میں ہونے والے شہدا کو جو بے گناہ و بے قصور اس تحریک کی نذر ہوئے، خراج عقیدت پیش کرتا یوں اور سوگوار خاندانوں سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں کہ لوگوں کو بجلی اور آٹا تو شاید کچھ سستا مل جائے لیکن یہ شہدا اپنے خاندانوں کو تنہا چھوڑ گئے۔ انکے بچے بے آسرا اور والدین زندہ درگور ہو گئے۔حکومت کی طرف سے انکو کچھ معاونت بھی مل جائے گی جو یقیناً اس کا کسی بھی صورت میں نعم البدل اور تلافی نہیں ہوگی۔ ایسی تحریکیں جو بالعموم leaderless ہوتی ہیں ان میں شر پسندوں کے لیئے اپنے مقاصد کی تکمیل آسانی ہوتی ہے۔ مطالبات و مسائل کے حل کے حوالے سے یقیناً عوام کو ایک ریلیف ملے گا لیکن اس تحریک کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ بھارت نے اس کو میڈیا میں بہت ایکسپلائٹ کیا ہے۔