• news

 چوبیس کروڑ عوام پرترس کھائیں 

موجودہ سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لئے سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی عدم استحکام کس نے ختم کرنا ہے؟ اداروں کو دائرہ کار میں لانے کا خواہشمند کون ہے؟ سیاستدان کو بات چیت کس سے کرنی چاہئے؟ میری نظر میں ان سب سوالوں کا جواب ہے سیاستدان۔ سیاستدانوں نے ہی سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے ملک کو بدترین حالات تک پہنچادیا ہے اور اب بھی یہ حالات کو درست سمت لے جانے کے لئے تیار نہیں۔ ان کی نظر میں جمہوریت اور آئین کی حیثیت اس وقت ثانوی رہ جاتی ہے جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں اور اقتدار میں آتے ہی جمہوریت و آئین کی بات کرنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اداروں کے حق میں قصیدے پڑھتے ہیں اور اقتدار سے محروم ہوکر اپنی تمام تر ناکامیوں اور نااہلیوں کا ملبہ اداروں پر ڈال کر خود فرشتہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اداروں کو اپنے آئینی دائرہ کار میں لانے کی بات بھی سیاستدان کرتے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری عملی اتفاق رائے اور قانون سازی نہیں کرتے۔ یہ سوال کہ سیاستدانوں کو بات چیت کس سے کرنی چاہئے؟ تو دنیا بھر میں سیاستدان آپس میں ہی بات چیت کرکے ملکی مسائل اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے اتفاق رائے پیدا کرکے ملک کو چلاتے ہیں۔ سیاستدانوں کو تو دوسرے سیاستدانوں سے ہی بات چیت کرنی چاہئے۔ سیاستدان  ایک طرف تو اداروں کو حدود میں رکھنے کی بات کرتے ہیں اور پھر اداروں سے مذاکرات کی بات کرکے اپنے موقف کی یکسر تردید کرتے نظر آتے ہیں۔ 
موجودہ حکومت قائم ہوتے ہی وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں اپوزیشن لیڈر کو بات چیت کی پیشکش کی تھی اور ہر طرح کی ضد و انا کو بالائے طاق رکھ کر اپوزیشن کو کھلے دل سے بات چیت کرکے تمام مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اپوزیشن کی جانب سے اس پیشکش کو یکسر مسترد کردیا گیا۔ پھر وقتاً فوقتاً وفاقی وزراء کی جانب سے بھی کھلے دل سے مذاکرات کی بات کو اپوزیشن کی جانب سے مسلسل مسترد کیا جارہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کو اہمیت دیکر بات چیت کے ذریعے متفقہ قانون سازی کرنی ہوگی جس سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوگا اور جمہوریت مضبوط ہوگی جس سے ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول بنے گا۔ بدقسمتی سے اپوزیشن کی جانب سے سیاسی جماعتوں سے بات چیت سے مسلسل انکار کیا جا رہا ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ سیاستدانوں کو جمہوریت میں دوسری سیاسی جماعتوں سے بات چیت کرنی چاہئے اور جمہوری ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر قومی اتفاق رائے سے قومی حکومت کے قیام کا اعلان کرکے تمام شعبوں میں ضروری اصلاحات‘ انتخابی نظام‘ صوبوں کے قیام‘ اداروں کو آئینی حدود میں لانے،  معاشی خوشحالی‘ توانائی بحران‘ زراعت کی ترقی سمیت تمام امور پر مشترکہ کوششوں کا اعلان کریں۔ ایسا کرلینے سے ملک سیاسی عدم استحکام سے نکل آئے گا اور پارلیمنٹ و جمہوریت مضبوط ہوگی۔ پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لئے سیاسی جماعتوں کو آپس میں بات چیت کرنی ہوگی۔
معاشی معاملات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے تحفظ اور سی پیک کے منصوبوں پر عملدرآمداور سرمایہ کاری کے متعلق وفاقی کمیٹی، جس میں تمام سروسز چیف بھی شریک ہوتے ہیں، بہترین انداز میں کام کر رہی ہے۔ جب سے یہ کمیٹی فعال ہوئی ہے ملک میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ اب 74,000انڈیکس تک پہنچ چکی ہے۔ ڈالر کی قیمتوں میں کمی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں کمی کا رجحان بھی جاری ہے۔ وفاقی سطح پر اس کمیٹی کے فعال کردار کی وجہ سے ملک سے سمگلنگ کے خاتمے کیلئے آپریشن جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد سے ملک میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ جیسا کہ ایران نے پاکستان سے تجارت کا حجم بڑھانے کا اعلان کیا اسی طرح سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ کاری کا معاہدہ ہوا ہے۔ اب سیاستدانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ معیشت کو بہتری کی جانب لے جانے کے لئے اپنے حصے کا مثبت کردار ادا کریں۔
سیاستدان ہی ملک کو موجودہ معاشی حالات تک پہنچانے کے مکمل ذمہ دار ہیں۔ اس بارے میں میں کئی کہہ چکا ہوں کہ کس طرح اور کب ملک بدتر معاشی حالات کا شکار ہوا اور کب ملک کی معیشت و ادارے مضبوط ہوئے اور میرٹ رائج ہوا۔ موجودہ نظام ملک کے مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ فرسودہ نظام کا خاتمہ سیاستدانوں نے ہی کرنا ہے جو صرف زبانی جمع خرچ سے تبدیل نہیں ہوگا بلکہ عملی طور پر سیاسی اتفاق رائے سے ہی ایسا ممکن ہے۔ متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کا نظام رائج ہونا چاہئے۔ متناسب نمائندگی کا نظام دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے اور جب سے یہ نظام ان ممالک میں رائج ہوا ہے وہاں کے مسائل حل ہونا شروع ہوئے ہیں۔ نئے انتظامی صوبے قائم کئے جائیں۔ دنیا بھر کی طرح مقامی حکومتوں کو یونین کونسل کی سطح تک بااختیار بناکر تمام ممکنہ وسائل کی فراہمی کا نظام قائم کیا جائے اور وفاق میں چند اہم وزارتیں رکھ کر باقی امور بتدریج صوبوں اور پھر ضلع‘ تحصیل و یونین کونسل تک تفویض کئے جائیں۔ عدالتی نظام میں تبدیلی لاکر دیوانی مقدمے کا فیصلہ ایک سال اور فوجداری کا 6ماہ میں کرنے کا پابند بنایا جائے۔ اسی طرح ہائی کورٹ و سپریم کورٹ میں اپیلوں پر بھی 3-3ماہ میں فیصلے ہونے چاہئیں تاکہ عام آدمی کو فوری سستا انصاف مل سکے۔ اس کے لئے عدلیہ کو تمام ضروری وسائل فراہم کرنا بھی سیاستدانوں کی ہی ذمہ داری ہے۔
یہاں تو کسی کو بھی عوام کی فکر نہیں ہے۔ سیاستدان الیکشن کے موجودہ نظام میں کروڑوں اربوں روپے خرچ کرکے الیکشن مہم چلاتے ہیں اور جب کامیاب ہوکر اقتدار تک پہنچتے ہیں تو مختلف طریقوں سے اربوں روپے کماتے ہیں۔ ظاہر ہے جب سیاست پر اربوں روپے خرچ کئے جائیں گے تو کسی بھی طریقے سے منافع سمیت واپس لئے جاتے ہیں۔ اس نظام کا خاتمہ کرکے متناسب نمائندگی کا نظام ہی سیاست سے دولت کے عنصر کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ سیاستدانوں کی الیکشن مہم کے دوران تقاریر سنی جائیں تو ان جیسا اس ملک اور عوام کا ہمدرد کوئی اور نظر نہیں آئے گا لیکن اربوں روپے خرچ کرکے الیکشن مہم چلانے کی مالی استطاعت رکھنے والے سیاستدان اقتدار میں آکر گاڑیاں‘ پیٹرول‘ تنخواہیں اور بھاری مراعات لیتے ہیں۔ کیا یہ ملک و عوام کے لئے اپنی ذاتی جیب سے خرچ نہیں کرسکتے؟ کیا ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے مخصوص مدت تک تمام مراعات سے دستبرداری کا مشترکہ اعلان نہیں کرسکتے؟  اس معاملے میں تو حزب اقتدار و اپوزیشن کے سب سیاستدان ایک پیج پر ہیں اور کبھی بھی اس موضوع پر کسی بھی جماعت کا لیڈر اہم پیشرفت کرتا نظر نہیں آئے گا اور نہ ہی کرپشن پر سزائے موت کے قانون کی منظوری کی کوشش ہوئی ہے۔
سیاستدانوں میں اپنی مراعات‘ تنخواہیں اور اختیارات بڑھانے کے متعلق تو مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور اس معاملے میں ہمیشہ مل جل کر ہی منظوری کرلی جاتی ہے لیکن جہاں کبھی ملک اور عام آدمی کی بات آتی ہے وہاں یہ آپس میں لڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ روز شام کو ٹیلی ویڑن پر الزام تراشی کی سیاست کرکے عوام کو نان ایشوز میں الجھایا جاتا ہے تاکہ یہ اصل مسائل اور ان کے حل کی جانب متوجہ ہی نہ ہوسکیں۔ 
موجودہ سیاسی حالات کو درست کرنا بھی سیاستدانوں کی ہی ذمہ داری ہے اور اگر بروقت مناسب فیصلے نہ کئے گئے اور ملک کی فکر نہ کی گئی تو ملک کے ذمہ دار اداروں کو کسی ماورائے آئین اقدام کے تحت ہی ملک بچانا پڑے گا جس کی تمام تر ذمہ داری سیاسی جماعتوںپر ہی عائد ہوگی۔عوام ایسے سیاستدانوں پر نظر رکھیں جو ملک کو معاشی طور پر بدحالی کا شکار کررہے ہیں اور ضد‘ انا و نفرت کی سیاست کو فروغ دیکر ملک کے حالات خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن