ملاکنڈ، سوات میں مجوزہ ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف ہڑتال
ملاکنڈڈویژمیں ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف تاجر برادری کا مکمل شٹر ڈائون، پورے ڈویژن میں بازار بند اور سڑکیں سنسان رہیں، حکومت سے دہشت گردی سمیت قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں ٹیکسوں کے نفاذ سے پہلے زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ ، گزشتہ روز تاجران صدر ملاکنڈ ڈویژن عبدالرحیم کی اپیل پر پورے ملاکنڈ ڈویژن میں حکومت کی جانب سے مجوزہ ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف کامیاب ہڑتال کی گئی جس کی وجہ سے مینگورہ شہر سمیت ڈویژن کے دیگر علاقوں دیر،اپر، دیر لوئر، بونیراور ضلع شانگلہ بشام میں تمام بازاریں اور دُکانیں بند رہیں، اس حوالے سے مختلف مقامات پر سیاسی قائدین اور دیگر تنظیموں کی جانب سے بھی ہڑتال کی حمایت کی گئی۔
اس سے قبل تاجران فیڈریشن کے زیر اہتمام ایک ہفتہ قبل ایک اہم اجلاس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ سوات سمیت پورے ملاکنڈ ڈویژن میں گزشتہ دوعشروں سے اس ڈویژن کے لوگ کئی طرح کے مسائل کا سامنا کررہے ہیں ، دہشت گردی ، فوجی آپریشن اور بعد میں زلزلہ اور کئی مرتبہ سیلاب آنے سے ملاکنڈ ڈویژن کے بیشتر علاقوں کا پورا انفراسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا جس کی وجہ سے لوگ بے روزگاری کے باعث غربت کا شکار ہوگئے ہیں، علاقے میں زندگی کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لوگ معاشی بدحالی کی وجہ سے ملک کے دیگر علاقوں میں محنت مزدوری پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ڈویژن کے تمام اضلاع کے تاجر رہنمائوں اور سیاسی قائدین نے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے ملاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع میں زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے نیزسوات اور دیگر علاقوں کو دس سال کیلئے ٹیکس سے استثنیٰ بھی دیا جائے اور جب حالات ٹیکس دینے کے قابل ہوجائیں تب لوگوں پر ٹیکس لگایا جائے ۔ مختلف تقاریب میں خطاب کرتے ہوئے مقررین نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس حوالے سے ہوش کے ناخن لے اور ملاکنڈ ڈویژن کے لوگوں کو کشمیریوں کی طرح پرتشدد صورتحال پر مجبور نہ کرے بصورت دیگر سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے لوگ بھی اپنا حق لینے کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
ملاکنڈ ڈویژن بشمول سوات کے حالات معروضی ہیں، یہاں پر کسٹم ایکٹ کا نفاذ نہیں اور سوات جو قیام پاکستان سے لے کر 1969تک ایک آزاد ریاست تھا یہاں والی سوات کی حکومت تھی لیکن بعدمیں ایوب خان کے دور حکومت میں سوات کے شاہی خاندان اور ایوب خان کے خاندان میں رشتہ داری کے باعث تعلقات اس حد تک بڑھے کہ ریاست سوات کو مدغم کرتے ہوئے پاکستان کو تحفہ میں دیا گیا ، اس کے بعد سوات کے لوگ محسوس کررہے ہیں کہ یہ فیصلہ یہاں کے عوام کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوا اور اسی دن سے سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کے برے دن شروع ہوگئے ہیں ۔
بتایا جارہا ہے کہ والی سوات نے پاکستان کے ساتھ ادغام کرتے وقت کچھ شرائط طے کیں تھیں جس میں ملاکنڈ ڈویژن بشمول سوات میں کسی قسم کے ٹیکس سے یہاں کے لوگوں کو استثنیٰ حاصل ہے اس حوالے سے شاہی خاندان کی بہو اور سابق ایم این اے مسرت احمد زیب نے ایک انٹرویو میں ’’نوائے وقت‘‘ کو بتایا تھا کہ ادغام کے وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سوات کے لوگ کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کریں گے لیکن بدقسمتی سے اب حکومت پاکستان اپنے اس معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس کے نفاذ کا فیصلہ کئے ہوئے ہے۔
اس سے قبل بھی ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس کے نفاذ کے حوالے سے کوششیں کی گئی ہیں جس کے خلاف اس وقت مینگورہ شہر اور موجود وقت میں ملاکنڈ ڈویژن ٹریڈر ز فیڈریشن کے صدر حاجی عبد الرحیم مزاحم ہوئے اور ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہوٹل ایسوسی ایشن سمیت تمام سیاسی قائدین بھی ایک پیج پر اکھٹے ہوئے اور سب نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ سوات بشمول ملاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع میں کسی قسم کا ٹیکس منظور نہیں اس کے لئے گاہے بگاہے احتجاج ہوتے رہے جس کے بعد ہر دفعہ حکومت کو بیک فٹ پر جانا پڑتا رہا ۔
ملاکنڈ ڈویژن کی صورتحال ہر کسی کو معلوم ہے کہ یہاں پر 2000 کی دہائی میں دہشت گردی کی صورت بڑی تباہی آئی جس کے بعد فوجی اپریشن میں پورے ڈویژن کا انفراسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا اس کے بعد بار بار کے زلزلوں اور پھر 2010 کے بعد 2012 اور پھر حالیہ سیلاب نے سوات سمیت پورے ملاکنڈ ڈویژن کے رہے سہے انفراسٹرکچر کو مکمل تباہی سے دوچار کیا ، سیاحتی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے اکثریتی لوگوں کے معاش کا دارومدار سیاحتی سرگرمیوں سے وابستہ ہے لیکن بدقسمتی سے عین سیاحتی سیزن کے دوران سیلاب آنے سے ہوٹل انڈسٹری بھی بری طرح متاثرہورہی ہے جس پر کاروباری طبقہ پریشانی کا شکارہے ایسے میں حکومت کی جانب سے کسٹم ایکٹ کے نفاذ اور نا ن کسٹم پیڈ گاڑیوں پر ٹیکس کا ایشو کھڑ ا کرکے لوگوں سے ٹیکس اکھٹا کرنے کی تیاری نے علاقے کی لوگوں کو شدید پریشانی سے دوچار کردیا ہے اس حوالے سے گزشتہ ہفتے 7 مئی کو ملاکنڈ ٹریڈرز فیڈریشن کے زیر اہتمام سوات پریس کلب میں ایک اہم تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں ملاکنڈ ٹریڈرز فیڈریشن کے صدر عبدالرحیم، ترجمان ڈاکٹر خالد محمود، ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر ، ٹریڈرز فیڈریشن لوئر دیر کے صدر انوارالدین، ضلع بونیر تاجران کے صدر فضل ربی، بشام بازار کے صدر محمد زادہ،بٹ خیلہ بازار کے صدر شاکراللہ ، اپر سوات بازار کے صدر محمد زبیر خان، ملاکنڈ ایجنسی کے صدر زوار خان نے واضح الفاظ میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام اس وقت ٹیکس دینے کی کسی صورت متحمل نہیں سب سے پہلے یہاں کے لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اس کے بعد ٹیکس کے نفاذ کا سوچا جائے ۔
ٹریڈرز فیڈریشن کے اجلاس میں حکومت کو14مئی تک مطالبات کی منظوری کیلئے ڈیڈلائن دی گئی تھی اور بصورت دیگر شٹر ڈائون کا اعلان کیا گیا تھا ، بدقسمتی سے تاجران اور علاقے کے لوگوںکے مطالبات کو حکومتی ذمہ داروں نے درخوراعتنا نہیں سمجھا، حکومت کی جانب سے کسی قسم کا رد عمل سامنے نہ آنے پر مجبورا ً بروز منگل 14 مئی کو پورے ڈویژن میں کامیاب شٹر ڈائون ہڑتال کی گئی ، اس حوالے سے مختلف مقامات پر احتجاجی تقاریب کا بھی اہتمام کیا گیا ، تاجران صدر ملاکنڈ ڈویژن عبدالرحیم نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہمیں سول نافرمانی پر مجبور نہ کرے اور ٹیکس کے نفاذ کافیصلہ فی الفور واپس لیا جائے بصورت دیگر ہم کشمیریوں کی طرح اپنا حق لینے کیلئے سڑکوں پر آئیں گے اور اس کے نتیجے میں حالات جو بھی رُخ اختیار کریں گے پھر ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے کیونکہ پھر عوام کو کنٹرول کرنا ہمارے بس میں نہیں ہوگا۔