گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی کیلئے قانون سازی ہونی چاہئے: جسٹس محسن
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے جبری گمشدگی کیس میں سیکرٹری دفاع اور سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی اسلام آباد کو ذاتی حیثیت میں عدالت طلب کرلیا اور سماعت پیر تک ملتوی کردی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے مقدمے کی سماعت کی۔ ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ عدالت نے استفسار کہ کیا پیش رفت ہے؟۔ سرکاری وکیل نے بتایا کہ سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم بنائی ہے، کوشش جاری ہے۔ ایس ایس پی آپریشنز نے کہا کہ میں لاپتہ فرد کی اہلیہ سے ملا ہوں، جہاں تک مجھے پتا چلا ہے گھر کے باہر سے ان کو اٹھایا گیا، ہم نے 15 گاڑیوں کی فوٹیجز لیں ہیں، گاڑیوں کے نمبر رات ہونے کی وجہ سے نہیں پڑھے جا رہے، گاڑیوں کے نمبر ٹریس کرنے کے لیے ابھی بھی ایف آئی اے میں کام جاری ہے، ملک بھر کے تمام آئی جیز کو ہم نے خط لکھا ہے، تمام خفیہ اداروں کو بھی خطوط لکھے ہیں، جیوفینسنگ ہم نے کر لی ہے کچھ وقت اس میں لگے گا، سی ڈی آر اور جیوفینسنگ پر کام ابھی ہونا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کو مثبت رسپانس ملا ہو؟ کل کہا تھا کہ پولیس انوسٹی گیشن جب ختم ہو جائے تو سیکرٹری دفاع کو بلاؤں گا، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل صاحب! سیکرٹری دفاع کو بلانے کا یہی وقت ہے، یا تو آپ کہیں کہ را کے ایجنٹس آئے اور بندے کو اٹھایا، تو میں مان لوں، اس سال میں جتنے بھی پرچے ہوئے ہیں کسی میں بھی ابھی تک تفتیش مکمل نہیں ہوئی، میں ابھی بتا رہا ہوں، یہ فنگر پرنٹس ہی میچ نہیں کریں گے، باعث شرم بات ہے، پوری قوم کو پتا ہے کہ کون کیا کررہا ہے۔ عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ پورے پاکستان کو مجھ سمیت پتا ہے مگر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ہم نے، کیا زبردست سسٹم ہے، لاپتہ شخص بیچارہ واپس آکر کچھ کہہ بھی نہیں سکتا، لاپتہ شخص جب آ جاتا ہے تو ان کو اور ان کی فیملی کو بتایا جاتا ہے خاموش رہنا ہے، میری رائے ہے کہ قانون سازی ہو اور گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے، اصل بات وہی ہے، وہ لوگ لاپتہ ہیں جو بات کررہے ہیں، لاپتہ افراد میں اکثریت صحافیوں، سوشل کارکنوں کی ہیں۔ سیکرٹری دفاع سے کچھ نہیں ہوا تو وزرا اور پھر وزیر اعظم کو بلائیں گے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے کوئی لاپتہ ہوگا تو سزا آئی جی کو بھگتنا ہوگی۔ سکیورٹی اداروں کو خط لکھنے سے مسئلہ حل ہوگا؟ایس ایس پی آپریشنز نے بتایا جب ان اداروں کو لکھتے ہیں تو کبھی مثبت جواب نہیں آیا۔اس پر عدالت نے کہا کہ ایک عام آدمی کی چار باتیں آپ کو بری لگتی ہیں، بندے کو ہی اٹھا لیا، سارا دن سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزتیں اچھالی جارہی ہیں، کیا کریں، سب کو اٹھائیں گے؟ اگر آپ سے کام نہیں ہورہا تو کوئی متبادل آپشن دیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اپنا کام کریں تو آپ کو پریس کانفرنسز کی ضرورت نہیں پڑے گی، بندے کے بازیابی میں اگر یہ سارے ناکام ہوئے تو ان کے خلاف توہین عدالت کا شوکاز کروں گا، مجھے پولیس پر پورا یقین ہے، ریاست کا چہرہ پولیس ہے کوئی اور نہیں۔