ریاست کی قیمت پر سیاست
ڈاکٹر پروفیسر کیرول کرسٹائین فیئر امریکہ میں جارج ٹاﺅن یونیورسٹی کے والش اسکول برائے خارجہ کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کےساتھ منسلک ہے۔ اسے جنوبی ایشیاءمیں انسداد دہشت گردی کے امور میں ماہر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پوری دنیا میں کہیں بھی سیمینار منعقد ہویا جنوبی ایشیاءمیں انسداد دہشت گردی بطور موضوع زیربحث ہو تو ڈاکٹر کرسٹائن فیئرکو خصوصی طور پر مدعو کیاجاتا ہے۔ پاک فوج اور پاکستان کی ناقد ہونے کی وجہ سے یہ خاتون بھارت کے بہت قریب سمجھی جاتی رہی ہے۔ بھارت میں پاکستان پر دہشتگردی کا الزام ثابت کرنے کیلئے یورپ و امریکہ میں جب بھی کہیں کسی سیمینار کا اہتمام کیا جاتا ڈاکٹر کرسٹائن فیئر وہاں مہان خاص کے طور پر ضرور موجود ہوتی۔ ڈاکٹر فیئر اور بھارت کا یہ رومانس 15دسمبر2019ءکو اس وقت تک جاری رہا جب بھارت کے بالا کوٹ آزاد کشمیر میں انڈین ایئرفورس کی طرف سے سرجیکل اسٹرایک کے حوالے سے موقف ، جس میں بھارت نے بالا کوٹ میں دہشت گردوں کے دو ٹھکانوں اور وہاں موجود سینکڑوں دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ توکیا لیکن دنیااسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی اور اس حوالے سے بھارت کے تمام دلائل اور تاولیں بے کار ثابت ہوئیں تو بھارت نے 15دسمبر 2019ءکو انڈین ایئرفورس کے تعاون سے ایک بہت بڑے سیمینار کا اہتمام کیا تاکہ اپنے موقف کو ثبوتوں کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا جاسکے۔
اس سمینار میں انڈین ایئر فورس نے 26 فروری 2019ءکو انڈین ایئر فور س کے طیاروں کی بالاکوٹ میں دہشتگردی کے تربیتی کیمپوں اور ٹھکانوں پر بمباری پر مبنی بہت سی فلمیں یہ کہتے ہوئے چلائیں کہ مذکورہ فوٹیج دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر داغے گئے گائیڈڈ راکٹوں میں نصب کیمروں سے ریکارڈ شدہ ہیں۔ ہدف پر راکٹ گرنے اور پھٹنے سے وہاں ہونے والی تباہی کے مناظر کو انڈین ایئرفورس کے طیاروں میں نصب کیمروں کا کارنامہ قراردیا گیاتھا۔ سیمینار کے دوران فروری 2019ء میں انڈین ائیرچیف مارشل بی ایس دھانوا اسٹیج سیکریٹری تھے جو ریٹائرڈ منٹ کے بعد مذکورہ سمینار میں بڑی سکرین پر دکھائی جانیوالی فلموں کے ساتھ ساتھ تفصیلات بیان کرتے جارہے تھے۔ سیمینار میں بھارت میں دنیا بھر کے سفارت خانوں میں تعینات ملٹری اتاشیوں کے علاوہ بہت سے غیر ملکی سفیر بھی موجود تھے۔ بھارتی فوج کی تینوں سروسز سے وابستہ ریٹائرڈ اور حاضر سروس سینئر افسران بھی بڑی تعدادمیں سمینار میں شریک تھے۔ سب کے تمتماتے ہوئے چہرے منتظر تھے کہ آخر میں جب خطاب کیلئے ڈاکٹر کرسٹائین فیئر اسٹیج پر تشریف لائیں گی اور وہ جس طرح پاکستان اور پاک فوج پر کھل کر تنقید کرنے عادی ہے اسی انداز میں جب انڈین ایئرفورس کی بالاکوٹ میں سرجیکل اسٹرائیک کے بھارتی موقوف کی تائید کرتے ہوئے پاکستان کے لتے لے گی تو پاکستان کیلئے منہ چھپانا مشکل ہوجائےگا۔ دنیا مجبور ہوجائے گی کہ وہ پاکستان کو دہشتگردریاست کے طو پر تسلیم کرے۔لیکن سیمینارمیں موجود سارے مہمان اس وقت دم بخوردہ گئے جب کرسٹائن فیئر نے اسٹیج پر مائیک سنبھالتے ہی بالاکوٹ آزاد کشمیر میں انڈین ایئر فورس کے آپریشن کو تاریخ کاسب سے بڑا جھوٹ اور فراڈ قراردےدیا۔ اس نے سکرین پر دکھائی گئی فلموں کو انڈین ایئرفورس کا نہیں بلکہ کمپیوٹر پر بچوں کیلئے تیار کی گئی ویڈیو گیمز کی طرز پر تیار کیا گیا فکشن قرار دیا۔ برداشت سے باہر ہوتی بے عزتی کے سبب ایک بھارتی سکھ بریگیڈیئر نے پنجابی زبان میں بآواز بلندڈاکٹر فیئر پر فقرہ چست کیا تو کرسٹائن فیئر نے اپنی تقریر روک کر پنجابی زبان میں اسے جواب دیا کہ تم نے یہ بھانڈ پن جس اسکول سے سیکھا ہے میں اسکی پرنسپل رہ چکی ہوں۔ اگر تم باز نہ آئے تو تمہارے ساتھ یہاں وہ سلوک کروں گی جو تم کسی کومنہ دکھانے کے قابل نہیں رہوگے۔ تم کیا چاہتے ہو کہ میں تمہارے اس دھوکے کی گواہ بن جاو¿ں جو تم نے بالاکوٹ آزاد کشمیر پر سرجیکل اسٹرائیک کے نام پر اپنے عوام اور دنیا کودے رکھا ہے؟
اسی ڈاکٹر کرسٹائن فیئر سے 2015ءمیں امریکہ کی اکلوہاما یونیورسٹی میں افغانستان میں امریکی فوج کی ناکامی اور اس میں پاک فوج کے کردار کے حوالے سے منعقد ہونے والے ایک سیمینار کے دوران جب صحافیوں نے سوال کیا کہ پاکستان پر قابوپانے کیلئے اسے کیسے غیر مستحکم کیاجاسکتا ہے تو ڈاکٹر فیئرکا مندرجہ ذیل جواب جوکہ امریکی و برطانوی اخبارات میں شائع ہوابہت ہی بامعنی تھا۔ اس نے کہا
For Pakistan state to collaps, it is basically Pakistan Army, which has to collaps. For better or worse I do not see that happening"
ڈاکٹر کرسٹائن کے جواب پر ایک صحافی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے پاک فوج کی موجودگی میں پاکستان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ہر دور حکومت میں پاک فوج کو ہدف تنقید بنایاجانا ہمیشہ معمول رہا ہے۔ اور اب تو سوشل میڈیا پر جاری جملہ بازی سے یوں لگتا ہے جیسے ملک میں سارے مسائل پاک فوج کے پیدا کردہ ہیں اور فوج سے اختیارات چھینے بغیر یہ مسائل حل ہونے والے نہیں۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے اور باشعور افراد بھی اس طرح کے پروپیگنڈے کا شکار دکھائی دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ یہی فوج ہی ہے جس نے ملک میں تمام تر فتنوں ، انتشار اور سازشوں کے علاوہ دہشت گردی کے برپا طوفان اور ختم نہ ہونےوالے سیاسی عدم استحکام کے باوجود ملک کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنایا ہوا ہے۔ فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کرنےوالوں کی اکثریت خوشحالی طبقات پرمشتمل ہے انہیں غصہ عمران خان کے اقتدار سے باہر ہونے کا ہے۔وہ اس سچ کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ عمران خان سیاستدان ہے تو اسکے مدمقابل بھی سیاستدان ہی اس وقت برسراقتدار ہیں۔ ان میں سے کوئی تین تو کوئی دونسلوں سے حکومت یا اپوزیشن کا حصہ چلے آرہے ہیں اور فوج کے کاندھوں پرسوارہوکر اقتدار تک پہنچنے کو ہی سیاست سمجھتے ہیں۔ یہی طریقہ 2018ءمیں عمران خان نے اختیار کیا تواب فوج پر غصہ اور سیاسی حل کیلئے فوج کے ساتھ ہی مذاکرات پر اسرار کیوں ؟ ریاست کی قیمت پر سیاست کا یہ طریقہ اب ختم ہونا چاہیئے۔ اقتدار کیلئے احتجاج کی روایت نے پاکستان کو معاشی طور پرپہلے ہی بہت پیچھے دھکیل دیاہے۔ ملک میں سیاسی کشیدگی ہے جو ختم ہونے کو نہیں آرہی جبکہ اسی کشیدہ سیاسی ماحول میں عوام دن بہ دن کنگال اور اشرافیہ خوشحال ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس گھمبیر صورتحال میں فوج کے خلاف الزام تراشیوں اور فوج پر فتح حاصل کرنے جیسے لغظ نعروں سے مسائل حل ہونے والے نہیں۔ اس کا حل سیاستدانوں نے ہی تلاش کرنا ہے۔ جس کیلئے پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا مل بیٹھنا ضروری ہے۔