آفت زدہ کراچی
ادب ، تہذیب اور ثقافت کا گہوارہ کراچی گزشتہ چالیس سال سے بلاﺅں اور وباﺅں کے نرغے میں ہے۔ پاکستان کا معاشی مرکز ہونے کی وجہ سے یہ شہر گزشتہ چالیس سال سے دشمنوں کے گھیرے سے نکل نہیں پایا اور اب تو یہ آرٹس اور ادب کے نام پر واردات ڈالنے والے آسیبوں کے قبضے میں ہے۔ جس شہر سے حقیقی فنون لطیفہ چھین کر مصنوعی سرگرمیاں رائج کردی جائیں تو اس سے بڑھ کر آفت زدگی اور کیا ہوسکتی ہے۔ کراچی کے نوجوان شاعر رمزی آثم اور عظیم مصور منصور زبیری کراچی کو آرٹس کے شعبے میں آفت زدہ قرار دیتے ہیں۔
اس دفعہ مجھے برطانیہ سے گیارہ سال بعد پاکستان آنے والی نہایت منفرد و معتبر شاعرہ نکہت افتخار کے اعزاز میں بزم طلبہ ریڈیو پاکستان کراچی کی طرف سے منعقد کی گئی تقریب میں شرکت کے لیے لاہور سے کراچی جانا پڑا۔ میں نے جب ایشیاءکے ممتاز مصور اور ، خطاط اور مجسمہ ساز منصور زبیری پریذیڈنٹ پاکستان رائیٹرز یونین کو بتایا کہ کراچی آ رہا ہوں تو انہوں نے حکم صادر فرما دیا کہ سیدھا میرے گھر آنا ہے اور یہیں رہنا ہے۔ ہم یہاں نوجوان شاعر رمزی آثم کی قیادت میں کراچی کے نوجوانوں کے اعزاز میں ، ” چراغ ہائے منور “ مشاعرہ سجائیں گے۔ زبیری صاحب نے بتایا کہ آرٹ کونسل کے پروگرامز اور فیسٹیولز کی ڈائریکشن تبدیل کرکے رکھ دی گئی ہے جس سے نوجوان تخلیق کاروں اور فنکاروں میں بہت مایوسی پھیل رہی ہے۔ ہمیں ان کو سینے سے لگا کے حوصلہ دینا ہے۔ میں نے ان سے اتفاق کیا۔ ادھر ممتاز شاعر ، نقاد اور ماہرتعلیم پروفیسر شاہدکمال نے شفقت فرماتے ہوئے جمیل جالبی فاونڈیشن کے زیر ِ اہتمام جامعہ کراچی میں میرے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کیا جس کی صدارت سینئر موسٹ ادیب ، شاعر اور ماہر ِ تعلیم سحرانصاری نے فرمائی۔ پروفیسر شاہدکمال ، منصور زبیری اور ڈاکٹر ارشد رضوی نے بطور مہمانان اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔ تقریب کی مہتمم سینئر استاد اور ماہرتعلیم و انچارج جمیل جالبی فاونڈیشن لائبریری آپا نوشابہ صدیقی نے فاونڈیشن کے اغراض و مقاصد اور سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔ منصور زبیری اور پروفیسر شاہدکمال نے مختصر اظہار خیال کیا جبکہ ڈاکٹر ارشد جاوید رضوی نے نہایت پرانی یادوں اور شام کے بعد کے حوالے سے نہایت عمدہ و اعلیٰ مضمون پڑھا جس کی سطر سطر پر شاعری کا گمان ہوتا تھا۔
اگلے روز یونین کلب میں نکہت افتخار کے اعزاز میں ہونے والی تقریب اپنی تمام تر بے ترتیبی اور افراتفری کا شاہکار ہونے کے باوجود گورنر سندھ کی شمولیت سے اہم ہوگئی۔ کتنا باوقار ہوجاتا اگر شکیل عادل زادہ اور دیگر شخصیات کی خصوصی اور مسلسل شفقت کے باعث نگران وزارت کے عہدے تک پہنچنے والا انیق احمد پیرزادہ قاسم کو ان کی کرسی سے اٹھا کر گورنر سندھ کو وہ کرسی پیش کرنے کی بجائے عزت مآب گورنر صاحب کو بازو والی کرسی پیش کرتا تو ادیب کے معتبر ہونے کی گواہی بھی ملتی اور انیق احمد کے زبانی جمع خرچ کا ثبوت بھی مل جاتا۔ موجودہ گورنر سندھ عزت مآب کامران تسوری صاحب ایک نہایت حلیم الطبع اور تصنع سے پاک انسان ہیں۔ وہ کبھی اس بات کا برا نہ مناتے۔ بزم طلبہ کی تقریب میں بزم کی ایلومینائی کی شرکت اتنی پرجوش اور غالب تھی کہ نکہت افتخار کی شاعری اور شخصیت دب کر رہ گئی۔ محمود شام بھی نہایت مشاقی سے اپنے کسی نئے یا پرانے کالم میں نکہت افتخار کے اشعار موتیوں کی طرح فِٹ کر کے سرخرو ٹھہرے۔ اگر انیق احمد شوق ِ خطابت کو ایک ہی دن میں پورا کرنے کی بجائے تقریب کے ناظم خالد فرشوری پر ہی بھروسہ کیے رکھتے تو تقریب اتنی منتشر نہ رہتی جتنی کہ رہی۔
ڈاکٹر نکہت افتخار اور میں شعری اوائل عمری میں دبئی میں ہونے والے جشن پیرزادہ میں شامل تھے۔ جشن میں افتخار عارف اور جون ایلیاءسمیت برصغیر کے تقریباً تمام بڑے اور قدآوار شعراءشامل تھے لیکن منتظم سلیم جعفری نے بتایا کہ یہ جشن فرحت عباس شاہ اور نکہت افتخار نے ل±وٹ لیا ہے۔ اس بات کو شاعروں نے یہ سمجھا کہ ہم نے ہائی جیک کرلیا ہے اور یہ ان سب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ میں نے بزم طلبہ کی تقریب میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کو بتایا کہ ہمیں انکے جشن کے بعد آج تک مشاعروں سے دور رکھا گیا ہے حالانکہ ان کاجشن ہم نے کسی شعوری کوشش یا منصوبہ بندی سے فتح نہیں کیا تھا جس کی ہمیں آج تک سزا دی جا رہی ہے اور نہ ہمارے معصومانہ ذہن میں کوئی ایسی بات تھی کہ آپ کا جشن ہمارے کلام کی گونج میں دب کر رہ جائے۔ شام کا کھانا سہ ماہی رنگ ادب کے مدیر شاعر علی شاعر بھائی کے ہاں تھا جس میں پاکستان کے عظیم محقق ، اعلیٰ نقاد اور نہایت معتبر شاعر اکرم کنجاہی سے ملاقات ہوئی۔ ایشیاءکے نامور مجسمہ ساز اور مصور منصور زبیری نے محفل کو زینت بخشی۔ اس دعوت شیراز میں سینئر شاعر رفیع الدین راز بھی شریک ہوئے۔ اگلے دن دریائے محبت شائق شہاب اور حلیم الطبع دوست سلمان ریاض ، سہیل احمد ، فیاض وید اور پروفیسر سید شاہدحسن کمال کی صدارت میں ہونے والی شعری نشست میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ ناہید عزمی ، صغیر بھائی اور بھابھی صبیحہ صبا کی محبتیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔ رات میٹرو ٹی وی کے پروگرام بزم شاعری میں شرکت کرنے کا موقع میسر آیا۔ سوموار 13 مئی جو کراچی کے ادبی مافیا کے لیے یوم سیاہ کے طور پر منایا جائیگا کراچی کی ادبی تاریخ میں ایک تاریخ رقم کر گیا۔ نوجوان شاعر اور کمال کے شاعر رمزی آثم نے جو ایک مدت سے نوجوان شعراءکی حق تلفی ہونے پر صدائے احتجاج بلند کر رہا تھا، منصور زبیری کے ساتھ مل کے ایسا شاندار پروگرام ترتیب دیا کہ شہر بھر میں ہلچل مچ گئی۔ مشاعرے کا نام ” چراغ ہائے منور مشاعرہ “ رکھا گیا۔ صدارت بے مثال نوجوان شاعر ضیاءشاہد نے کی۔ مہمان ِ خصوصی نگہت افتخار تھیں۔ مہمانان ِ اعزاز نوجوان شعراءعود ابرار احمد اور حسن علی ظافر تھے۔ مشاعرے کی نظامت رمزی آثم اور سوہنی پارس نے کی۔مشاعرےمیں جناب حماد ہادی، فہیم بزدار،فونیس،احمد شہزاد،آل عمر،شہزاد علی،فراز شاہد، فرحت عباس شاہ،سلمان ریاض، شائق شہاب، منصور زبیری،ظفر بلوچ، شاعر علی شاعر،اکرم کنجائی، شاہد کمال اور محترمہ فاطمہ حسن نے اپنا کلام پیش کیا۔ شائق شہاب نے پروگرام کے انعقاد کے انتظامی امور سرانجام دیے۔
میرے ان چار دنوں کے کراچی وزٹ میں کچھ باتیں بہت دلچسپ رہیں۔ ایک تو یہ کہ کراچی کے با اثر ادبی گروپ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ فرحت عباس شاہ ، منصور زبیری اور رمزی آثم کی کسی تقریب کا نہ اہتمام ہونے دیا جائے نہ اس میں شرکت کی جائے۔ فون کر کر کے کسی کی منت سماجت کی گئی اور کسی کو دھمکیاں لگائی گئیں حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر پوسٹیں لگائی گئیں کہ چارغ ہائے منور مشاعرے میں شرکت کرنے والے آرٹس کونسل کی تقاریب سے خود کو فارغ سمجھیں لیکن دلچسپ بات یہ ہوئی کہ سارے کراچی نے اس تمام منفی عمل کو مسترد کردیا۔
میرے لیے خوشی کی بات کراچی کے نہایت اعلیٰ فکر اور بڑے امکانات سے سرشار نوجوان شعراءکے دمکتے ہوئے چہرے اور مہکتا ہوا کلام تھا۔ پھر اس وقت تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا جب ایشاء کے ممتاز مصور منصور زبیری نے میرے ایک شعر پر میرے سامنے پینٹنگ بنا کر مجھے عنایت فرمائی۔ کالم میں آپ کو پینٹنگ دکھانے کی سہولت تو میسر نہیں لیکن شعر آپ کی بصارتوں کی نظر کرتا ہوں۔
بعد آنکھوں کے مِرا دل بھی نکالا اس نے
اس کوشک تھا کہ مجھے اب بھی نظر آتا ہے