• news

کشمیر جیسی عوامی تحریک سے پہلے ہی عوام کو مہنگائی سے نجات دلا دیں

وزیراعظم میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں احتجاجی تحریک کے دوران شر پسند عناصر کی طرف سے صورتحال کو بگاڑنے اور جلاﺅ گھیراﺅ کی کوششیں کی گئیں جو حکومت کی بہترین حکمت عملی کے باعث ناکام ہوگئیں۔ وزیراعظم نے گزشتہ روز اپنے دورہءآزاد کشمیر کے دوران آزاد جموں و کشمیر کابینہ کے اجلاس میں شرکت کی اور کابینہ کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر کے معاملات کو بہتر طریقے سے حل کرلیا گیا ہے۔ پاکستان کشمیری عوام کیلئے پوری دنیا میں آواز اٹھاتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ احتجاجی تحریک میں بعض ایسے شرپسند شریک تھے جن کا مقصد تھا کہ کسی طریقے سے آزاد جموں و کشمیر میں توڑ پھوڑ اور جلاﺅ گھیراﺅ کرکے انسانی جانوں کا نقصان پہنچایا جائے۔ ان عناصر کی وجہ سے ہی ایک پولیس اہلکار اور کچھ شہری جاں بحق ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ جاں بحق ہونیوالوں کے لواحقین کو اور جن کی املاک کو نقصان پہنچا‘ انہیں بھی حکومت کی جانب سے امدادی پیکیج دیا جارہا ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری انوارالحق نیئر نے کابینہ کے اجلاس میں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں شہبازشریف کی جانب سے آزاد کشمیر کے عوام کیلئے 23 ارب روپے کا پیکیج دینے پر آزاد کشمیر کابینہ کی جانب سے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ روشن اور خوشحال پاکستان کشمیریوں کی منزل ہے۔ کشمیریوں کا پاکستان کے ساتھ ایک مضبوط اور لازوال رشتہ ہے جو کبھی کمزور نہیں ہو سکتا۔ 
بے شک کشمیر پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے جس کے بغیر پاکستان کی تکمیل ممکن نہیں۔ اسی بنیاد پر قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور تقسیم ہند کے وقت ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر آل انڈیا مسلم لیگ اور کشمیری قیادتوں کے مابین اتفاق ہوا تھا۔ اسی تناظر میں تقسیم ہند کے فارملے میں بھی طے ہوا تھا کہ مسلم اکثریتی آبادی والی ریاستوں کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوگا جبکہ کشمیری عوام پہلے ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر چکے تھے۔ تاہم تقسیم ہند کے موقع پر ہندو لیڈر شپ نے ایک سازش کے تحت کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کرکے اسکے غالب حصے پر اپنا تسلط جمالیا اور کشمیر کو متنازعہ بنا کر اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا۔ بھارت کی یہ شروع دن کی بدنیتی درحقیقت پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر کمزور کرنے کی بدنیتی تھی جس کی بنیاد پر وہ آج کے دن تک پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے اور اس پر تین بار جنگیں مسلط کرنے کے علاوہ دہشت گردی کے ذریعے بھی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے درپے ہے۔ اس نے مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کرنے کے بجائے وہاں نہ صرف اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی برقرار رکھی ہوئی ہے بلکہ پانچ اگست 2019ءکے اقدام کے تحت وہ اپنے ناجائز زیرتسلط وادءکشمیر کو بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بھی بنا چکا ہے۔ 
اسکے برعکس پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے استصواب کے ذریعے حل کا اصولی موقف اپنایا ہے جو اقوام متحدہ کا تسلیم شدہ حل ہے اور پوری دنیا کشمیریوں کے استصواب کے حق کیلئے انکے ساتھ کھڑی ہے۔ پاکستان نے اسی تناظر میں کشمیر کی آزاد اور خودمختار حیثیت تسلیم کی ہے جہاں حکومتی‘ انتظامی‘ عدالتی نظام کشمیریوں کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ چونکہ بھارت کو اس امر کا یقین ہے کہ رائے شماری میں کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کا ہی فیصلہ کریں گے اس لئے بھارت کی ہر حکومت نے کشمیر پر بھارتی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی برقرار رکھی اور استصواب کی جانب آنے سے گریز کیا۔ بھارت کی موجودہ مودی سرکار چونکہ ہندو انتہاءپسندوں کی نمائندہ جماعت ہے اس لئے وہ کشمیری عوام کے ساتھ بھی مسلمان ہونے کے ناطے مخاصمت رکھتی ہے اور اس نے کشمیریوں کو دبانے اور اپنی آزادی کی جدوجہد سے ہٹانے کے حربوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسکے برعکس آزاد کشمیر میں وہاں کے عوام کو ہر قسم کی آزادیاں حاصل ہیں جس کی بنیاد پر بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آواز بھی توانا ہوتی ہے جبکہ مودی سرکار آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر بھی مقبوضہ کشمیر جیسا اپنا تسلط جمانے کی سازشوں میں مصروف ہے جس کا خود نریندر مودی اور انکی کابینہ کے ہندو انتہاءپسند ارکان اعلانیہ تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ 
اس صورتحال میں جب آزاد کشمیر کے عوام میں انتہاءکو پہنچی مہنگائی کی بنیاد پر اضطراب پیدا ہوا اور انہوں نے باہم متحد ہو کر مہنگائی کیخلاف تحریک چلانے اور مظفرآباد کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کیا تو بھارت کو اس تحریک کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا نادر موقع مل گیا چنانچہ بھارتی میڈیا اس تحریک کی بنیاد پر کشمیری عوام کو اکسانے اور پاکستان کیخلاف ہزرہ سرائی کیلئے سرگرم ہو گیا جبکہ سوشل میڈیا پر پاکستان کے بدخواہوں اور ایک مخصوص سیاسی جماعت کے میڈیا سیل نے بھی پاکستان کیخلاف ہزرہ سرائی کی انتہاءکر دی۔ 
یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کو گورننس کی خامیوں اور ناقص حکومتی اقتصادی پالیسیوں کے باعث سنگین اقتصادی مسائل کا سامنا ہے اور مہنگائی انتہا کو پہنچ چکی ہے جس نے عوام کو عملاً زندہ درگور کر دیا ہے۔ یہی حالات کشمیری عوام کو بھی درپیش تھے جنہوں نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر آکر اپنے مسائل کے حل کیلئے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا اور وہ بالآخر تحریک میں کامیاب ہوئے۔ اس تحریک کے دو منطقی نتائج تو کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے مسائل کی بنیاد پر پاکستان اور اس سے ملحقہ آزاد کشمیر کے عوام مضطرب ہونگے اور سڑکوں پر آکر تحریک چلانے کا فیصلہ کرینگے تو اس صورتحال کو پاکستان کے خلاف اپنی سازشیں پروان چڑھانے کیلئے کیش کرانے کا بھارت کو نادر موقع ملے گا اور بھارت نے آزاد کشمیر میں اس موقع سے فائدہ بھی اٹھایا ہے جس کے بارے میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے یہ دوٹوک بیان بھی دیا ہے کہ آزاد کشمیر میں گڑبڑ پھیلانے میں پڑوسی ملک بھارت کا ہاتھ ہے۔ اس تحریک کا دوسرا پہلو پاکستان کے حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ انتہاءدرجے کی مہنگائی کے ردعمل میں کل کو کشمیری عوام کی طرح پاکستان کے عوام بھی حکومت کیخلاف تحریک چلا سکتے ہیں۔ بے شک وزیراعظم شہبازشریف نے 23 ارب روپے کے پیکیج کے ذریعے کشمیری عوام کو مطمئن کر دیا ہے جبکہ پاکستان کے عوام کو بھی ایسے ہی ریلیف کے تحت مطمئن کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے حکومت کو کسی عوامی تحریک کے اٹھنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسی تحریکوں کے نتائج سسٹم اور ملک کی سلامتی کے حوالے سے اچھے برامد نہیں ہوتے۔

ای پیپر-دی نیشن