اتوار‘ 10 ذیقعد 1445ھ ‘ 19 مئی 2024ء
مریم نواز نے ایلیٹ فورس کی وردی پہن کر سلامی لی اور اجلاس کی صدارت کی۔
اس سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب پولیس کی وردی پہن کر پنجاب پولیس پریڈ کا معائنہ کرنے اور خطاب کرنے پر موضوع بحث بن چکی ہیں۔ جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسے سراہاتو وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ان پر کافی تنقید بھی کی۔ اب ظاہر ہے اس سے عوام کا کچھ لینا دینا نہیں ہاں اگر وزیر اعلی کی پولیس کی وردی پہننے سے پولیس کا کلچر تبدیل ہوتا ہے تو یہ واقعی بڑے کمال کی بات ہو گی۔ اسی طرح اگر ایلیٹ فورس کی وردی پہننے سے ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے اس میں مزید نکھار آتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں یہ اچھا ردعمل ہے۔ تاہم اب ایک بار پھر ناقدین ان پر تنقیدکریں گے اور کہیں گے کہ وہ اب عوام پر وردی کا رعب ڈالنا چاہتی ہیں۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں۔ وردی پہننے سے اگر وردی والوں کی عزت افزائی ہوتی ہے تو اس میں ہرج بھی کیا ہے۔ آخر یہ وردی والے بھی تو ہمارے اپنے ہیں ہماری ہی گودوں کے پالے ہیں۔ اگر کچھ لوگ وردی کا غلط استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ سب ویسے ہی ہیں۔ ہمیں اپنے اداروں سے محبت کرنا چاہیے ہمارے لئے سب خواہ وردی والے ہوں یا بغیر وردی کے، قابل احترام ہیں۔ اچھے اور برے سب جگہ پائے جاتے ہیں۔ بہرحال وزیر اعلیٰ وردی میں بھی خوب جچ رہی تھیں۔ اگر واقعی وہ پولیس افسر ہوتیں تو بھی دبنگ افسر ہوتیں۔ بطور وزیر اعلیٰ انہیں ہر وقت خیال خاطر احباب رکھنا پڑتا ہے۔ کہیں سختی کہیں نرمی سے کام لینا پڑتا ہے۔ مگر وردی والوں کو تو یکساں رویہ رکھنا پڑتا ہے۔
٭٭٭٭٭
موہنجوداڑو میں پبلک ٹوائلٹس تھے، کراچی میں نہیں ہیں۔ عدالت کے ریمارکس۔
بات یہ ہے کہ 5ہزار سال قبل موہنجوداڑو میں رہنے والے لوگ انسان تھے انہیں سولائزیشن کے تحت زندگی بسر کرنے کا شوق تھا جبھی تو انہوں نے اپنے شہر میں آب رسانی، پبلک ٹوائلٹس اور سیوریج کا بہترین سسٹم بنایا تھا۔ اس کا ثبوت حالیہ سیلاب بھی ہیں۔ بڑے بڑے جدید شہر کراچی ،حیدر آباد ، سکھر سمیت ڈوب گئے مگر موہنجوداڑو میں پانی مختصر وقفے کے بعد نکل گیا۔ اب ایک کیس کراچی کی عدالت میں چل رہا ہے کہ کراچی جیسے میٹروپولیٹن بڑے جدید شہر میں سڑکوں پارکوں اور بازاروں میں پبلک ٹوائلٹس نہیں ہیں۔ یہی حال پلازوں اور شاپنگ سینٹرز کا بھی ہے۔ سچ کہیں تو جو ہیں بھی تو انکی صفائی کی حالت نہایت ابتر ہے۔نقشوں میں یہ ٹوائلٹس ضرور ہوں گے مگر بعد میں لالچی لوگوں نے انہیں بھی دکانوں کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اب روزانہ لاکھوں افراد کراچی کی سڑکوں پر سفر کرتے ہیں۔ بازاروں میں خریداری کے لیے آتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان کے لیے وہاں واش رومز کی سہولت نہیں۔ مرد حضرات تو اِدھر اْدھر دیواروں کی اوٹ میں مثانہ ہلکا کر لیتے ہیں۔ مگر خواتین کے لیے یہ نہایت اذیت ناک مسئلہ ہے۔ یہی حالت بچوں کی بھی ہوتی ہے۔ اب اس بارے میں عدالت نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے یہ ریمارکس دئیے ہیں۔ دراصل یہ موہنجوداڑو کے مکینوں اور وہاں کا نقشہ بنانے والوں کو سلام ہے جنہوں نے 5 ہزار سال قبل شہر بناتے ہوئے ان تمام باتوں کا خیال رکھا جو ہم آج کے جدید دور میں نہیں رکھ پا رہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کتنے ترقی یافتہ لوگ ہیں۔
٭٭٭٭
خیبر پی کے حکومت کا پنجاب کے کسانوں سے گندم کی خریداری کا فیصلہ۔
لگتا ہے اس وقت سندھ، پنجاب اور خیبر پی کے کے درمیاں مقابلہ حسن کارکردگی ہو رہا ہے۔ جس میں گرچہ اس وقت پنجاب آگے جا رہا ہے مگر اب خیبر پی کے کی حکومت نے یہ چھکا مار کر میچ کا پانسہ پلٹ دیا ہے۔ جی ہاں خیبر پی کے حکومت نے پنجاب کے کسانوں سے گندم کی خریداری کا صرف فیصلہ ہی نہیں کیا بلکہ یہ گندم سرکاری ریٹ یعنی 3900 روپے فی من کے حساب سے خریدی جائے گی۔ اس سے امید ہے پنجاب کے کسانوں کو کچھ ریلیف ملے گا اور خیبر پی کے میں بھی گندم کے ذخائر بڑھنے سے وہاں آٹے کی قیمت نیچے آئے گی جس کی وجہ سے عوام کو سستی روٹی اور نان مل سکے گا۔ اب حکومت بلوچستان کے لیے بھی سنہری موقع ہے کہ وہ پنجاب کے کسانوں سے گندم کی بھرپور خریداری کرے اور اپنے گندم کے ذخائر میں اضافہ کر کے سٹوریج سسٹم بہتر بنائے تاکہ وہاں کے عوام کو بھی ریلیف ملے۔ اس وقت بلوچستان میں بھی آٹے کا بحران ہے اور روٹی و نان مہنگے داموں فروخت ہو رہے ہیں۔ سندھ والے بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہاں بھی روٹی سستی نہیں مل رہی۔ رہی بات خود پنجاب کی تو وہاں ابھی تک حکومت نے ریٹ مقرر کرنے کے بعد بھی خریداری شروع نہیں کی۔ شاید اس کے گودام بھرے ہوئے ہیں اور مزید گندم رکھنے کی جگہ نہیں۔ تاہم پرائیویٹ سیکٹر خریداری کر رہا ہے مگر سرکاری ریٹ سے کم پر جس کا نقصان کسانوں کو ہو رہا ہے۔ کسان اور کئی سیاسی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔ مگر فی الحال سرکاری خریداری نہیں ہو رہی۔ اب دیکھئے ہوتا ہے کیا قطرے پہ گْہر ہونے تک۔ پنجاب حکومت کب نرم پڑتی ہے۔ اورخریداری شروع کرتی ہے۔
٭٭٭٭
شدید گرمی کی لہر، پنجاب کے سکولوں میں یکم جون سے گرمیوں کی چھٹیاں دینے کا اعلان۔
اب معلوم نہیں یہ طلبا کی خوش قسمتی ہے یا تعلیمی نقصان کہ کرونا کے بعد سے آج تک چھٹیوں کا جو متواتر سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اس میں ابھی تک کوئی خاص کمی نہیں ہوئی۔ کبھی بارش کبھی سیلاب کی وجہ سے اور اب گرمیوں کی شدت کے باعث سکولوں میں یکم جون تا 14 اگست چھٹیوں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس سے جہاں طلبہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے وہاں بچوں کے والدین میں پریشانی کا طوفان جنم لے رہا ہے کیونکہ اب انہیں طویل عرصہ تک ان شیطان کے پرکالوں کی ہنگامہ آرائی برداشت کرنا ہو گی جو واقعی بڑے دل گردے کا کام ہے۔ پہلے گھر کے کام کاج کیا کم ہیں کہ اب بچوں کی شرارتیں بھی سہنا ہوں گی جو نہ خود آرام سے رہتے ہیں نہ کسی کو رہنے دیتے ہیں اوپر سے گرمی کے ہاتھوں رہی سہی کسر پوری ہو جاتی ہے۔ صبح سے رات تک یہ گھر والوں کے حواس پر سوار رہیں گے۔ پہلے صبح 7 بجے تا دوپہر 2 بجے ان طوفان کے دھاروں کو سکول والوں نے سنبھال رکھا ہوتا ہے۔ اب جولائی کے بعد مون سون کی بارشیں شروع ہوں گی تو کیا ہو گا کیا اس وقت بھی چھٹیوں کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔ تب سیلاب کی وجہ سے سکول بند کرنا ہوں گے۔ اس طرح سارا سال تعلیمی سلسلہ صرف چند ماہ جاری رہے گا باقی سب چھٹیوں کی نذر ہو جائے گا۔ اس کا بْرا اثر تعلیم پر پڑے گا۔ بچوں کے تعلیمی حرج کی وجہ سے ان کی ذہنی صلاحیتوں اور کارکردگی پر منفی اثر کوئی اچھی بات نہیں۔ اس لیے اب سکولوں کی اضافی چھٹیوں پر کنٹرول کرنا ہو گا ورنہ چھٹیوں کی طرح بچے بھی کنٹرول سیباہر ہو جائیں گے…
٭٭٭٭