ماہر امورِ معیشت سے گفتگو
منشی پریم چند نے کہا تھا ’’غم نداری بز بخر‘‘ یعنی اگر تجھے کوئی غم نہیں تو بکری خرید لے۔ منشی جی کا یہ فلسفہ ہمیشہ میری سمجھ سے بالا تر رہا کیونکہ آجکل بکریاں پالنا غم و اندوہ کی علامت نہیں رہا بلکہ یہ تھوڑی لاگت سے زیادہ منعفت بخش کاروبار کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ دیہات میں ویسے بھی کم رقم لگا کر زیادہ پیداوار دینے والی ’ٹیڈی‘ بکریاں چین کی بنی مصنوعات کی طرح گھر گھر پائی جا رہی ہیں۔ تاہم میں منشی جی کے قول کی کھوج میں کسی باباجی یا دانشور کی بجائے ایک کاروباری دوست کے پاس گیا۔ اْس نے میری بات پوری توجہ سے سنی اور اپنے دوست کے پاس اپنا سفارشی رقعہ دے کر بھیج دیا۔ اْن کے یہ دوست نگران دور میں ماہرِ امورِ معاشیات کے طور پر گاہے بگاہے حکومتی اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے تھے۔
ماہرِ امورِ معاشیات نے میری بات مکمل ہوتے ہی ترنت مشورہ دیا کہ منشی پریم چند کی بکری کو چھوڑو، وہی نتائج حاصل کرنے کے لئے کسی عزیز یا دوست کو ادھار دے دو۔ میں نے عرض کیا کہ میں اِس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ کسی کو ادھار دے سکوں تو فرمانے لگے تو پھر حکومتِ وقت کی طرح ادھار لے لو اور کسی کاروبار میں لگا لو۔ تجویز کی معقولیت اور افادیت دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیا تو گویا ہوئے، ’’مسٹر! سوچو مت، آئی ایم ایف بنو یا حکومت۔‘‘
انسان روپے پیسے کے معاملے میں کتنا خود غرض واقع ہوا ہے۔ فنانشل ایڈوائس ملتے ہی مجھے منشی پریم چند کے افسانوں، مضامین اور اقوال کو ذہن سے محو کرنے میں ذرا تردد نہیں کرنا پڑا۔ اب اْن کی جگہ ماہرِ امورِ معیشت کا فلسفہ برق رفتاری سے میرے ذہن میں کوند رہا تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد میں نے اپنے چند قریبی دوستوں سے ادھار لے کر کہیں سرمایہ کاری کرنے کا پروگرام بنا لیا۔ اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پھر اْسی کاروباری دوست سے مشاورت کیلئے اْس کے دفتر جا پہنچا۔ اتفاق سے ماہرِ امورِ معاشیات بھی وہاں تشریف فرما تھے۔ مجھے دیکھتے ہی دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کیں اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
ماہرِ امورِ معاشیات کسی لگی لپٹی کے بغیر کہنے لگے، ’’اگر تم نے فلسفے کی کتابوں کے مطالعہ کو خدا-حافظ کہتے ہوئے کسی سے قرض یا ادھار لے کر کوئی کاروبار شروع کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے تو سنو! ’’بنک سے بڑا ادھار (قرضہ) لینے کے بعد کسی حکومتی عہدیدار پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے یا ڈیل کے تحت اْسے رائٹ آف کروا لینا‘‘۔ میں نے کہا کہ میں اتنے بڑے حجم کا قرضہ لینے کا رسک افورڈ ہی نہیں کر سکتا۔ تو پھر جعلی دستاویزات کے ذریعے میل ملاپ کرکے قرضہ ہڑپ کریں اور بیرون ملک سیٹل ہو جائیں۔ میں نے صاف کہہ دیا کہ میں یہ غلط کام بھی نہیں کر سکتا۔ ’’او کے، میں سمجھ گیا تم کسی ناگہانی صورتحال سے ڈرتے ہو‘‘۔ ’’بس یہی سمجھ لیں‘‘ میں نے مختصر جواب دیا۔
انہوں نے پینترا بدلا اور کہنے لگے، ’’انفرادی حیثیت میں ادھار لینے کے کئی ذرائع ہیں۔ یہ کسی سادہ دل یا خدا ترس رشتہ دار، بھولے بھالے ہمسائے اور نادان دوستوں سے لیا جا سکتا ہے۔ اِس میں سود ادا نہیں کرنا پڑتا، بنک کے طریقہء کار کے برعکس لکھت پڑھت کرنے کا کوئی تکلف ہے اور نہ ہی گواہان کی ضرورت۔ طے جو بھی ہوا ہو، ادھار کی واپسی کا اختیار بہرصورت ادھار لینے والے کے اختیار میں ہوتا ہے۔ واپس نہ کرنے کی صورت میں ادھار لینے والے کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی‘‘۔
مسکراتے ہوئے مزید کہا کہ آپ ہماری عدالتوں کی طرح تاریخ پہ تاریخ دیتے چلے جائیں۔ آپ کا بال بیکا نہیں ہوگا مگر ادھار دینے والے کے بال وقت سے بہت پہلے سفید ہو جائیں گے۔ آزمائش شرط ہے!۔
میں نے خاموشی توڑتے ہوتے کہا، ’’مگر میں پیسوں کے لئے اپنا تعلق خراب کرنا مناسب نہیں سمجھوں گا‘‘۔ ’’تعلق خراب نہیں ہوگا جناب‘‘ ان صاحب نے ناصحانہ انداز میں کہا۔ ’’تعلق نبھانے کی صد فی صد ذمہ داری اْن صاحب کی ہے جنہوں نے تمہیں ادھار دیا ہے۔ ادھار لینے والا تعلق یا رشتہ نبھانے کے عمل سے اْسی دن فارغ، آزاد اور بریء الذمہ ہو گیا تھا جس دن اْس نے ادھار لیا تھا۔ اب اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داریوں کا ادھار بھی وہی چکائے گا جس نے ادھار دیا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا کہ لوگ ادھار کیوں لیتے ہیں؟ مسکرا کر کہنے لگے، ’’اِس کی بنیادی وجوہات دو ہو سکتی ہیں۔ ضرورتاً اور عادتاً۔ ضرورت کے تحت لئے جانے والے ادھار کی واپسی کے برائے نام چانسز ہو سکتے ہیں جبکہ عادتاً حاصل کیا جانے والا ادھار کبھی واپس نہیں ہوتا۔‘‘
میں نے کہا، ’’مگر میں تو قرضہ واپس کرنا چاہوں گا‘‘۔ میری اِس بات پر وہ بہت پر سکون انداز میں بولے، ’’ہمارے ہاں لیا ہوا قرضہ دو ہی صورتوں میں واپس کیا جاتا ہے، کمزور آدمی نے بنک سے لیا ہو یا پاکستان نے آئی ایم ایف سے لیا ہو‘‘۔
’’مگر یہ تو بہت زیادتی کی بات ہے‘‘ میں بمشکل کہہ سکا۔
’’نہیں بالکل نہیں‘‘ وہ دھاڑتے ہوئے بولے، ’’ادھار دینے والا ادھار کی رقم واپس نہ ملنے کے باوجود فائدے میں رہتا ہے۔ اْس کے دماغ کے بند خلئے تہہ در تہہ کھلنے میں ذرا دیر نہیں لگتی۔ اْس کے جسم و روح پر روح پرور اثرات پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً وہ ثقہ بند ’’تلقین شاہ‘‘ کا روپ دھار کر ہر کس و ناکس کو اپنے تجربے کو بنیاد بناتے ہوئے ادھار کے معاملات پر educate کرتا رہتا ہے۔ کاتبِ تقدیر اْس کے مقدر میں معرفت کی سیڑھیاں اور عرفان کی منزلیں جبکہ ڈاکٹر اْس کے لئے شوگر، بلڈ پریشر اور عارضہء دل ایسی بیماریوں کا نسخہ لکھ رہا ہوتا ہے۔ عام طور پر عجز و انکساری اْس کے ساتھ چپکی رہتی ہے اور صوم و صلوۃ کی پابندی اْس کے باطنی حسن کو نکھارتی چلی جاتی ہے۔ وہ چھپ چھپ کر اور رو رو کر اپنے کردہ سے زیادہ ناکردہ گناہوں کی معافی مانگتا رہتا ہے‘‘۔
سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے مزید کہا، ’’ادھار لینے اور دینے کے عمل میں ادھار لینے والا بغیر کوئی جنگ لڑے فاتح اور دینے والا مفتوح کہلاتا ہے۔ ادھار لینے والے کی حیثیت ایک سوار کی سی ہوتی ہے جبکہ دینے والے کی ایک گھوڑے کی۔ اور ہاں اس عمل میں بیوی کا کردار بھی اہم ہوتا ہے ادھار دینے والے کی بیوی طعن و تشنیع کے ذریعے اور ادھار لے کر واپس نہ کرنے والے کی زوجہ محترمہ سیسہ پلائی دیوار بن کر اپنے مرد کا مردانہ وار ساتھ دیتی ہے‘‘۔
’’مگر میں کسی کے ساتھ ایسا ظلم نہیں کر سکتا‘‘ میں نے اٹل انداز میں کہا۔ ’’ٹھیک ہے نہ کریں، تم کونسا میرے لئے کر رہے ہو‘‘ اْس نے سرد لہجے میں کہا۔
’’آپ ناراض نہ ہوں، ان کو کوئی طریقہ بتا دیں، یہ میرے بہت پرانے دوست ہیں۔ مجھے پتہ ہے، مالی معاملات کی وجہ سے پریشان ہیں‘‘ میرے دوست نے ان سے میری پھر سفارش کی۔
’’چونکہ یہ اشرافیہ میں شامل ہونے کے لائق ہی نہیں ہے لہذا آپ اِس کو منشی پریم چند کی وہ کتابیں خرید کر دے دیں جو ابھی تک یہ کمبخت نہیں پڑھ سکا‘‘۔ ماہرِ امورِ معیشت نے بیزاری سے کہا۔