امن معاشی ترقی سے ہی ممکن ہے
وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی زیر قیادت عسکری قوتیںامن بحالی کے لیے دن رات مصروف عمل ہیں ۔یہ نقطہ سب جانتے ہیں کہ امن معیشت کی بہتری سے ہی ممکن ہے ۔پنجابی کی ایک مثال ہے ’’جیدے گھر دانے اوہدے کملے وی سیانے‘‘ یعنی جہاں خوشحالی ہو وہاں لوگوں کے سوچنے سمجھنے کا انداز بہتر ہونے لگتا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں اللہ کے حکم سے بیت اللہ تعمیر کرتے ہیں تو اہل مکہ کے لیے ایک خاص دعا بھی کرتے ہیں۔ جس کو قرآن پاک نے یوں بیان کیا ہے کہ ’’یادکرو جب ابراہیم نے اپنے رب کو پکارا کہ اے میرے رب! اس سرزمین کو امن کا گہوارہ بنادے اس کے باشندوں کو پھلوں کی روزی عطا فرما‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعا میںنہ صرف شہر مکہ کے امن اور سلامتی کے لیے بلکہ معاش اور ذریعہ معاش کے لیے بھی دعاکرتے ہیں۔
ہم آج کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں بخوبی ا س بات کی سمجھ آجاتی ہے کہ جن ملکوں میں امن ہے انہی ملکوں کی معیشت بھی بہتر ہے ،انہی ملکوں کے نوجوان کھیل کے میدان میں آگے ہیں ۔انہی ملکوں میں جدید سائنسی ایجادات ہورہی ہیں ۔انہی ملکو ںمیں انصاف ،صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولت ہر خاص و عام کو میسر ہے۔انہی ملکوں کاادب ،آرٹ اور ثقافت دنیا میں مقبول ہورہا ہے ۔ دوسری طرف جن ملکوں میں امن و امان کے مسائل ہیں۔وہاں رہنے والے آپس میں ہی ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔وہ اپنے ہم وطنوں کو شک ،نفرت اور بغض سے دیکھتے ہیں۔ایسے ملکوں کے لوگوں کی سوچ متشدد،رویوں میں ہیجان اور افرا تفری نظر آتی ہے۔یہ نقطہ سب ہی جانتے ہیں کہ انسانی فطرت اور اس کے احساسات پر امن کی فضا بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کی نشونما اور زندگی کو جاری رکھنے کیلئے امن ایک بیش بہا تحفہ ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ امن ہر انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔
ایک خبر سے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ وزیر پاکستان نے ملکی برآمدات بڑھانے کیلئے صنعتوں کو کم لاگت پر بجلی و گیس کی فراہمی کے لیے کمر کس لی ہے ۔خبروں کے مطابق شہباز شریف حکومت ملکی صنعت کو درپیش چیلنجز کو کم کرنے اور عالمی منڈی میںمقابلے کی فضا پیدا کرنے کے لیے ملکی صنعتوں کے فروغ اور موجودہ پیداواری استعداد کوبڑھانے کے لئے ہر ممکنہ کوشش اور اقدامات کریگی۔بے شک اس وقت پاکستانی صنعت کو سب سے بڑا مسئلہ توانائی کی قلت اور بہت مہنگے داموں دستیابی کا ہی ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھنے اور فراہمی میں عدم تسلسل سے کارخانوں کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوچکی ہے۔ ماضی میں کئی کئی گھنٹوں تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور گیس کی غیر اعلانیہ بندش کی وجہ سے نہ صرف پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوتا رہاہے بلکہ وقت اور سرمایہ بچانے کے چکر میں کارخانے غیر معیاری مال بھی تیار کرتے رہے ہیں۔ نتیجہ، مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقتی کم ہو سکی ہے۔مقامی سطح پر خام مال کی کمی ملکی صنعتی پیداواری عمل کے لئے مشکلات کا سبب بن رہی ہے ۔ویسے تو ہر دور میں ہی دنیا میں ایجادات کی طرف توجہ دینے والے ملک معاشی میدان میں سبقت لے جاتے رہے ہیں لیکن پچھلی صدی میں ہونے والی سائنسی ایجادات نے دنیا میں صنعت کاری سمیت ہر شعبے کا نقشہ ہی بدل کے رکھ دیا ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس طرف خاطر خواہ دھیان نہ دیا گیا، رٹے لگا کے امتحان پاس کرنے والے ہمارے طالب علموں کو نہ تھیوری کی سمجھ ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کسی مستند ادارے سے کوئی ہنر سیکھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔نتیجہ، پاکستانی صنعت کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے۔ جدید مشینری اور ٹیکنالوجی کی دستیابی اس وقت بے معنی ہوجاتی ہے جب ان سے کام لینے کا درست طریقہ ہی مزدوروں کو معلوم نہ ہو۔غیر تربیت یافتہ مزدوروںکی وجہ سے نہ صرف پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے بلکہ پیداوار کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔ سڑکوں، ریلوے، اور بندرگاہوں کا ناقص نظام مصنوعات کی نقل و حمل میںمشکلات کا سبب رہاہے۔ موٹر وے اور ہائی ویز بننے سے کچھ حالت بہتر ہوئی ہے لیکن مجموعی طور پر آج بھی پاکستان میں صنعتی انفراسٹرکچر کی حالت کافی خراب ہے۔ اس کے علاوہ، صنعتی علاقوں میں سیوریج کا مناسب نظام نہ ہونے سے استعمال شدہ کیمیکل زیرزمین پانی میں مکس ہونے سے تیار مال کی کوالٹی کو متاثر ہورہی ہے۔پاکستانی صنعت کاروں کو بہت سے ادارہ جاتی اور مالیاتی مسائل کا سامنا ہے۔جیسا کہ بینکوں سے قرضوں کی فراہمی میں مشکلات اور بلند شرح سود ۔ صنعت کاروں کے مطابق، حکومت کی طرف سے فراہم کردہ سبسڈیز اور امدادی پیکیجز بھی ناکافی ہیں۔
اب اگر وزیر اعظم پاکستان ملکی صنعت کو بہتری کی راہ پر لانے کے لیے پر عزم ہیں تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے ملک بھر میں قائم ٹیکنیکل اداروں کے حالات کا جائزہ لیا جائے اور جہاں ضرورت ہو وہاں نئے مراکز قائم کیے جائیں۔ میٹرک اور کالج جانے والے طالب علموں کو دی جانے والی تعلیمی سند کسی’ ہنر‘ کے سیکھنے سے مشروط کردی جائے۔ توانائی کے شعبے پر خاص توجہ دی جا ئے اور بجلی گیس کے نرخ طے کرتے وقت صنعت کاروں کو اعتماد میں لیا جائے۔ایسا نظام ترتیب دیا جائے کہ صنعت کاروں کو آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی ممکن ہو اور جہاں ضرورت ہو،وہاں سبسڈیز فراہم کی جائیں۔ مقامی سطح پر خام مال کی پیداوار کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔تیار مال کو مقامی اور عالمی مارکیٹ کے تک پہچانے کے لیے انفراسٹرکچر کی حالت میں بہتری کا عمل شروع کیا جائے،اندرون ملک نقل و حمل کے لیے سڑکوں اور ریلوے نظام پر خاص توجہ دی جائے۔قبائلی علاقوں ، بلوچستان ، پنجاب اور سندھ کے پسماندہ ضلعوں میں صنعت کاروں کو تحفظ دیتے ہوئے نئے صنعتی شہر بسائے جائیں، ان علاقوں میں چلنے والی فیکٹریوں میں مقامی نوجوانوں کو ترجیعی بنیادوں پر روزگار فراہم کرنے کا قانون بنایا جائے۔جب شورش زدہ علاقوں میںصنعت ترقی کرے گی اورمقامی لوگوں کو روز گار ملے گا تو ان کا احساس محرومی ختم ہوگا ۔بچوں کو اچھی تعلیم ملے گی ،کاروبار چلے گا ،امن ہوگا ، گھر وںمیں خوشحالی آئے گی تو نوجوان ریاست کو کمزور کرنے کی بجائے ریاست سے محبت کے گیت گائیں گے ۔