• news

مسئلہ اور حل

میڈیا مسئلہ یا حل؟ سوال دلچسپ ہے اور اس کا جواب اس سے بھی زیادہ اہم۔ ملک کی معروف جامعہ شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ( زیبسٹ ) اسلام آباد کے شعبہ میڈیا سائنسز کے زیر اہتمام منعقد کی گئی انٹرنیشل میڈیا کانفرنس میں شرکا کے سامنے یہی سوال رکھا گیا جہاں ایک میز پر بیٹھے پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے میڈیا ماہرین، جن کے درمیان دلچسپ اور اہم مباحثہ ہوا‘ میڈیا اگر مسئلہ ہے تو اس کا حل کیا ہے اور اگر حل ہے تو کن مسائل کا اور کیسے ؟ سب سے پہلے ہماری صحافت اور میڈیا کے اس سفر کو سمجھنا ضروری ہے، صحافت یا جرنلزم،ماس کمیونیکشن سے ہوتی ہوئی اب میڈیا سائنسز بن چکی ہے اس لئے میڈیا کو ایک سائنس کی طرح سمجھنا ضروری ہے۔
 آج سے ڈھائی تین دہائیاں پیچھے چلے جائیں تو میڈیا وہ تھا جس کا صبح سویرے انتظار کیا جاتا،جی ہاں اخبار ،جہاں خبر ملتی تھی اور اندر کی خبر بھی ،وہ سب جو اس وقت دستیاب واحد سرکاری ٹی وی کے اکلوتے رات نو بجے کے خبر نامے میں نہیں ہوا کرتا تھا، ملک میں دراصل ہو کیا رہا ہے یہ سب جاننے کیلئے اگلی صبح کے اخبارات کا انتظار کرنا پڑتا، اور چوبیس گھنٹوں کے دوران کچھ بہت بڑا ہوگیا تو پھر یہی اخبارات ایک ضمیمہ شائع کردیا کرتے جسے اخبارات کی بریکنگ نیوز کہا جاسکتا ہے۔ پھر اس صدی کے آغاز میں ملک میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے انقلاب کا آغاز ہوا،ابھی کی خبر ابھی،فوری اور بروقت۔ اور بریکنگ نیوز کی دوڑ نے میڈیا کو تیز تر کردیا۔ لگ بھگ اگلی ایک دہائی ملک میں نجی ٹی وی چینلز کا راج رہا جس نے صحافت بدلی اور صحافی بھی۔ خبر بدلی اور خبر دینے کا انداز بھی۔ پھر ٹیکنالوجی کی تھرڈ جنریشن نے یہ سب بھی بدل ڈالا۔
 سوشل ،میڈیا الیکٹرانک میڈیا سے بڑا انقلاب اور اس سے بھی آگے ایک بڑا چیلنج بن کے سامنے آگیا۔ جہاں کبھی میڈیا عوام کی زبان تھا اب ہر کس کو اپنی زبان مل چکی تھی۔ عوام جنہیں پہلے اپنی آواز بلند کرنے کیلئے میڈیا کا در کھٹکھٹانا پڑتا اب یہ محتاجی ختم ہوچکی تھی، سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اکاو¿نٹ نے عام شہریوں کو بھی “میڈیا پرسنز” بنا دیا۔ صحافت کیلئے کم از کم کچھ تعلیم کچھ تجربے کچھ احساس ذمہ داری کا خیال رکھا جاتا تھا۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ ساتھ ہی ویوز سے متاثر ہوکر کئی ٹی وی چیبلز نے ان سوشل میڈیا والوں کو اپنے پاس جگہ دیکر باقاعدہ صحافی کے درجے پر فائز کردیا۔ وہ بھی سینئر۔ نیوز ٹی وی چینلز نے سوشل میڈیا سے متاثر ہوکر ان وائرل ویڈیوز اور خبروں کو اپنے نیوز بلیٹنز میں نمایاں جگہ دینا شروع کردی جن کا کوئی سر پیر تک نہ تھا۔ بس لوگ انہیں دیکھ رہے تھے اور یوں چینلز نے لوگوں کو وہ دکھانا شروع کردیا جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں نہ کہ وہ جو ان کو دکھایا جانا چاہیے۔ اور یوں سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کا فرق ختم ہوکر رہ گیا۔ یہ سب نیوز تک محدود نہیں بلکہ انٹرٹینمنٹ اور انفوٹییمنٹ سب پر کچھ ایسا ہی رنگ چڑھ گیا تو پھر کیا میڈیا کو مسئلہ مان لیا جائے؟ عام لوگوں سے پوچھیں تو اکثریت بھی شاید یہی کہے گی لیکن سب کچھ ایسا بھی ہرگز نہیں ان تمام مسئلوں کے باوجود میڈیا کا معاشرے میں مثبت کردار بھی کافی معاملات میں کافی حد تک رہا ہے لوگوں کو کئی اہم معاملات میں ضروری معلومات اسی میڈیا کے ذریعے ہی ملتی رہی ہیں۔ لیکن چلیں مان لیں، میڈیا ایک مسئلہ ہے تو حل کیا ہے۔
 حل یہی ہے کہ میڈیا کی باگ دوڑ مکمل طور پر ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو پروفیشنل ہوں اور پروفیشنل انداز میں پروفیشنل لوگوں کے ذریعے معاملات کو چلائیں،حقیقی صحافی کو اس کی پہچان لوٹائی جائے جو کہ سوشل میڈیا کے آنے سے کہیں گم ہوچکی ہے۔ کسی کو میڈیا پر لانے سے پہلے کم از کم اس کی تعلیمی اور صحافتی قابلیت کو پرکھ لیا جائے۔ ایڈیٹرز کے عہدے کو بااختیار بنایا جائے،اس پورے مباحثے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس میں نہ صرف صحافت بلکہ میڈیا کے دیگر شعبوں، جیسے ڈرامہ وغیرہ کے بڑے نام بھی شریک تھے، سب نے کھل کر اپنے شعبے میں پائی جانیوالی خامیوں کی نشاندہی کی اور انہیں تسلیم کیا اور حل بھی تجویز کئے۔ لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے مباحثے بند کمروں تک ہی محددد ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اور یہاں ہونیوالی سیر حاصل بحث کے نتائج ان لوگوں تک نہیں پہنچ پاتے جو ان معاملات کو درست کرسکتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں یا پھر شاید کوئی ان معاملات کو سدھارنے میں سنجیدہ ہی نہیں۔۔ تو کم از کم اس شعبے سے وابستہ لوگوں کو اپنی اپنی جگہ پر ہی اور اپنے طور پر ہی کچھ ایسا کر لینا چاہئے جو میڈیا کو مسئلے سے حل کی طرف لے جانے میں معاون بنے۔ چند قدم ہی سہی۔ ویسے ہماری معزر قارئین سے بھی یہی درخواست ہوگی کہ وہ بھی رائے دیں کہ کیا آج کا میڈیا مسئلہ بن چکا ہے یا مسائل کا حل ہے؟۔ اور اگر آپ اسے مسئلہ سمجھتے تو کیوں اور حل کیا ہے؟سوچئے گا ضرور۔

ای پیپر-دی نیشن