آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر عوام کا دیدنی خوف
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید اضافے کرے اور مصنوعی طور پر کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ کم نہ دکھائے، پاکستان کو اپنی نیٹ انٹرنیشنل انویسٹمنٹ پوزیشن مضبوط کرنا ہوگی اوراسے بیرونی ذمہ داریاں کم کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کے کرنٹ اکاﺅنٹ میں عدم توازن کا خطرہ بڑھ رہا ہے، درآمدی پابندیوں کی وجہ سے شرح تبادلہ میں لچک کم ہورہی ہے، شرح تبادلہ کی ناکافی لچک سے کرنٹ اکاﺅنٹ میں عدم توازن بڑھ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان پر مجموعی قرض کی ادائیگیوں کی بڑی ذمہ داریاں ہیں، درآمدی پابندیوں کیلئے اضافی پالیسی ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
بے شک اس وقت پاکستان کی اقتصادی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے‘ وہ اپنے دوست ممالک کی معاونت اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں سے قرض لے کر اپنی معیشت چلانے پر مجبور ہے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر کا گراف بھی بڑھتا اور گرتا نظر آتا ہے۔ اقتصادی صورتحال میں جب بھی بہتری آتی ہے تو ماہرین کی جانب سے اس رپورٹ کو عوام کے سامنے لایا جاتا ہے جس کا اعتراف عالمی ادارے بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ ماہ اپریل میں عالمی بنک اور بلوم برگ کی رپورٹ ریکارڈ پر ہے جس میں ان دونوں اداروں نے پاکستان کی معاشی صورتحال میں بہتری کا اعتراف کیا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی معاشی صورتحال میں بہتری کی رپورٹ سامنے لانے پر آئی ایم ایف کی جانب سے ڈکٹیشن دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ اس سے یہی تاثر پختہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا جا چکا ہے۔ اس وقت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پالیسی سطح کے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں جس میں قرض کے حجم اور آئی ایم ایف کے ساتھ آئندہ کیلئے شرائط و اہداف طے کئے جا رہے ہیں جو یقیناً آئی ایم ایف کی منشاءکے مطابق ہی طے ہونگے اور اسکی کڑی شرائط قبول کرکے ایک بار پھر ناتواں عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑنے کا اہتمام کیا جائیگا۔ جب تک آئی ایم ایف کی شرائط پر ”نومور“ کہنے کا عزم نہیں کیا جاتا، پاکستان اور اسکی معیشت کو اسکے بے رحم شکنجے سے آزاد نہیں کرایا جا سکتا۔ اس لئے حکمرانوں کو عوامی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے جرا¿ت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ملکی و عوامی مفاد میں آئی ایم ایف کی کوئی بھی ناروا شرط قبول کرنے سے معذرت کر لینی چاہیے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اپنے وسائل اور دوست ممالک کی معاونت پر انحصار کرکے ایسی پالیسی مرتب کی جائے جس سے پاکستان اور اسکے عوام کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے ہمیشہ کیلئے نجات مل سکے۔