”ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے“
ملکوں کے رقبے، محل وقوع،قدرتی وسائل، موسم، پانی اثاثے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے اللہ نے پاکستان اور خصوصی طور پر بلوچستان کے علاقے کو اپنی بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ بلوچستان پاکستان کے مجموعی رقبے کا 60 فیصد ہے۔ معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ سونے سے لے کر پتھر تک اورکوئلہ سے لے کر گیس تک دنیا کی انتہائی قیمتی دھاتوں سے لے کر پھلوں تک ہر لحاظ سے بلوچستان کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ محل وقوع کے اعتبار سے ایسی پوزیشن حاصل ہے کہ ایک طرف ایران، دوسری طرف افغانستان سمندر کے راستے دنیا کے دروازے کا نقشہ پیش کرتے ہیں مڈل ایسٹ بغل میں ہے۔ افغانستان سے آگے سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کا روٹ دنیا کا گہرا سمندر۔ گوادر نے تو دنیا کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ یعنی ہر لحاظ سے بلوچستان پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے لیکن بدقسمتی سے ہم ہر لحاظ سے بلوچستان کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ملک دشمن قوتوں نے عرصہ دراز سے بلوچستان کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے۔ دشمن بلوچستان میں امن و امان خراب کرنے اور دہشت گردی کے فروغ کیلئے بھاری ڈالروں کی سرمایہ کاری کر رہا ہے کیونکہ دشمن سمجھتا ہے کہ اگر بلوچستان کے حالات نارمل ہوتے ہیں تو صرف گوادر پورٹ اور سی پیک روٹ ہی پاکستان کی قسمت بدل سکتا ہے۔ اور اگر پاکستان بلوچستان میں پائی جانےوالی معدنیات سے استفادہ کرنا شروع کر دیتا ہے تو پاکستان کی دنوں میں کایا پلٹ سکتی ہے۔ مجھے ان سارے معاملات میں ہمیشہ سے دلچسپی رہی ہے۔ چند روز قبل اچانک میرے سیل فون کی گھنٹی بجی تو دوسری جانب میرے ایک دوست تھے کہنے لگے کہ نواب غوث بخش باروزئی لاہور آئے ہوئے ہیں انھوں نے کہا ہے کہ میں آپ سے رابطہ کروں وہ گپ شپ کرنا چاہ رہے ہیں۔ میں نے یہ موقع غنیمت جانا۔ نواب غوث بخش باروزئی کا خاندان خطے اور پاکستان کا درخشاں باب ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انکی کاوشیں اور کردار دستاویز کی صورت میں تاریخ کا حصہ ہے۔ ہم نے ان سے پاکستان کی مجموعی سیاسی صورتحال بلوچستان کے حالات اور دیگر معاملات پر گفتگو کی تو انھوں نے ہماری تشویش کو بھانپتے ہوئے کہا کہ پہلے صرف بلوچستان کا رونا روتے تھے اب پورے پاکستان کا حال بلوچستان جیسا ہو گیا ہے۔ ہمارے کرتا دھرتاو¿ں نے بلوچستان کو سیاسی تجربہ گاہ بنایا ہوا تھا۔ جس کو چاہا سر پر بٹھا لیا عوام کی چاہت کے برعکس فیصلے ٹھونسے جانے لگے جس سے خرابیاں گہری ہوتی گئیں۔ اب پورے پاکستان کو سیاسی تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے۔ ہم 76 سال سے تجربے کیے جا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے حالات ایسے نہیں کہ جس بارے کہا جائے کہ بات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکی ہے۔ اگر حالات درست کرنے کی نیت ٹھیک ہو تو اب بھی معاملات درست ہو سکتے ہیں۔ ہم نے نیت سے کام کیا تو ایک ہی تجربہ میں ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ہمارے ارادے متزلزل ہیں، ہماری صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں چاہتے، انکے ارادے مشکوک ہیں، تمام مسائل کا واحد حل سیاسی استحکام ہے، اس کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا اور سیاسی استحکام کی تعریف یہ نہیں کہ مرضی کے لوگ بٹھا دیے جائیں۔ ہمیں اپنے لیے نہیں، قوم کیلئے قابل قبول لوگوں کو آگے لانا ہو گا جو لینے کی بجائے ملک کو کچھ دینا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ بھی ہے، محب وطن لوگ بھی ہیں۔ قوم کیلئے قابل قبول لوگوں کو موقع ملنا چاہیے کیونکہ ہم تاریخ کے جس نازک موڑ پر کھڑے ہیں یہاں ہمیں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم نے کس طرف جانا ہے۔ ہمارے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک ماضی کی طرح جوڑ توڑ کر کے توڑ پھوڑ کی سیاست کرنا، دوسرا راستہ ملکی استحکام کیلئے نئے راستے کا انتخاب۔ نیا راستہ دشوار ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اس کیلئے بڑوں کو ضدوں اور اناو¿ں کی قربانی دینا پڑے گی۔ آئیں عید قربان سے قبل تہیہ کر لیں کہ ہم اپنی اناو¿ں کو قربان کر کے ملک کو درست سمت کی طرف لے جائیں ورنہ ہم پون صدی میں کبھی آئی ایم ایف کے ہاتھوں کبھی مہنگائی کے ہاتھوں اور کبھی ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں قربان ہوتے رہیں گے۔ آج پاکستان کے عوام اپنے مسروقہ مینڈیٹ کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آج بلوچستان سمیت ملک بھر میں نئی قیادتیں تخلیق کی جا رہی ہیں۔ یہ قیادتیں کسی تجربہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ، یسو پنجو ہار کبوتر،کی بنیاد پر تخلیق ہو رہی ہیں۔ ہمارے ہاں اتنی جان بچانے والی ادویات تیار نہیں ہوتیں جتنی قیادتیں تیار ہو رہی ہیں۔ آج پاکستان بنانے والوں کے خاندان بھی مایوس ہو رہے ہیں۔ تباہی کا جو کثیرالجہتی طوفان آرہا ہے اس میں نہ صرف بیرونی قوتوں کا عمل دخل ہے بلکہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس میں اپنوں کا بھی عمل دخل ہے۔ اس طوفان کے راستے میں سپیڈبریکر لگانے کیلئے ہمیں اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ پاکستان کی بیماری کی تشخیص ہو چکی، یہ کوئی لاعلاج مرض نہیں، اس کی دوائی بھی موجود ہے، ڈاکٹر بھی موجود ہے لیکن ڈاکٹر کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ مرض پر ہاتھ نہیں ڈالا جا رہا۔ ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا، ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے۔