بدھ ‘ 13 ذیقعد 1445ھ ‘ 22 مئی 2024
وزیر اعلی نے واپڈا ٹاون میں کپڑوں کی خریداری کی۔
لگتا ہے مریم نواز کو عوامی وزیر اعلیٰ کہلانے کا بہت شوق ہے۔ جس طرح ان کے چچا شہباز شریف نے خادم اعلیٰ کا نام اختیار کیا تو ان کے بعد آنے والے بھی مجبوراً یہی نام استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اب کون پنجاب کا خادم اعلیٰ تھا اور کون خادم اس کا سب کو علم ہے۔ اب مریم نواز کو لباس کے معاملے میں جو بہترین انتخاب کا ملکہ حاصل ہے وہ تو ان کے عام لباس کے علاوہ ان کے پولیس اور ایلیٹ فورس کی وردی پہن کر دیکھنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بخوبی جانتی ہیں کہ ان پر کونسا لباس جچتا ہے اور کب کون سا لباس پہننا ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب کپڑوں کی خریداری کے لیے واپڈا ٹاﺅن کی ایک دکان پر گئیں اب ظاہر ہے یہ عام دکان تو ہو گی نہیں۔ بڑی دکان ہو گی مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں لوگ جمع ہو گئے اور خریداری کرنے والوں نے وزیر اعلیٰ کے ساتھ سیلفیاں بنائیں۔ وہ انہیں اپنے درمیان پا کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ بے شک مریم نواز اس وقت عوام کے دل جیتنے میں مشغول ہیں اور اپنے چچا سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرح آرام سے نہیں رہتیں اور کہیں نہ کہیں سرپرائز دورہ کرتی نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے انتظامیہ بھی الرٹ رہتی ہے کہ نجانے اب اگلا دورہ کہاں کا ہو ، اس طرح صوبے میں ہونے والے ترقیاتی کاموں پر بھی اچھا اثر ہوتا ہے اور تاخیر کا خطرہ نہیں رہتا۔ اگر وزیر اعلیٰ عید سے قبل اسی طرح تجارتی مراکز کا دورہ کریں تو سیل کے نام پر لوٹ مار کرنے والوں کی گوشمالی بھی ہو گی اور شہر میں صفائی ستھرائی کا کام بھی زیادہ بہتر ہو گا۔
آئی جی اسلام آباد کے گھر کے باہر سے ٹیلی فون کی تاریں چوری۔
بعض وارداتیں ایسی ہوتی ہیں کہ عقل ماﺅف ہو جاتی ہے۔ جیسی یہ اسلام آباد جیسے سیف سٹی میں پولیس کے سب سے بڑے افسر کے گھر کے باہر سے چوری ہونے والی ٹیلی فون تاروں کی یہ واردات ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے چور اب خاصے دلیر ہو چکے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وہ چوری کسی وردی والے کے گھر کے سامنے کر رہے ہیں یا کسی عام شہری کے۔ ایک بات سب جانتے ہیں کہ ایسی وارداتیں عام طور پر گلی محلوں میں گھوم پھرکر کچرا جمع کرنے والے کرتے ہیں۔ کئی وارداتوں کی کیمرہ فوٹیج موجود ہے۔ کاندھے پر بڑا سا تھیلا لٹکائے یہ لوگ جن میں اکثر غیر ملکی مہاجر بھی شامل ہیں اطمینان سے پہلے گلی کی ریکی کرتے ہیں، ٹائمنگ طے کرتے ہیں اور اس کے بعد گھروں کے باہر لگے پائپ ، بجلی، ٹیلی فون و کیبل کی تاریں اور گاڑیوں کے شیشے ہی نہیں آرائشی جنگلے اور دیگر سامان بھی چوری کر کے لے جاتے ہیں۔ ان کے پاس کٹڑ سمیت تمام اشیاءموجود ہوتی ہیں۔ مگر اب یہ سوال ہے کہ کیا آئی جی کے گھر کے باہر سیفٹی کیمرے نہیں لگے تھے۔ کیا وہاں کوئی سکیورٹی گارڈ بھی نہیں تھا۔ اگر ایسا ہے تو کل کلاں کوئی بھی دہشت گرد یہاں کوئی واردات کر گیا تو اس کی ذمہ داری کون قبول کرے گا۔ اگر چور پولیس سے نہیں ڈرتے تو اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے ان کے کنکشن کہیں نہ کہیں اندر خانے ملے ہوئے ہیں۔ چوری چکاری کی وارداتوں کا تو اول ہمارے پولیس والے اندراج ہی نہیں کرتے۔ ڈکیتی پر ناک بھوں چڑھاتے ہوئے اسے چھینا جھپٹی قرار دینے کے اندراج پر زور دیتے ہیں۔ اب پولیس والے اس چوری کا مقدمہ کیا درج کریں گے یا ہو سکتا ہے تاروں کی پراسرار گمشدگی کی کوئی کہانی بنا ڈالیں۔ آئی جی صاحب کے تاثرات کیا ہوں گے اس چوری کی واردات پر کہ جب ان کا گھر محفوظ نہیں تو باقی شہریوں کا کیا حال ہو گا۔
جسٹس قاضی فائز نے تحفہ میں ملنے والا قلم توشہ خانے میں جمع کرا دیا۔
جب اس وقت کئی توشہ خانہ کیس خود چیف جسٹس کی عدالت میں چل رہے ہوں تو پھر چیف جسٹس نے یہ بہتر فیصلہ کیا ہے تاکہ کسی کو بات کرنے کا موقع نہ ملے۔ انہیں رابطہ عالمی اسلامی کے سربراہ نے یہ قلم تحفے میں دیا تھا۔ اگر چیف جسٹس چاہتے تو یہ قیمتی قلم اپنے پاس رکھتے اور اس سے ملک کی تاریخ کے بہت سے اہم فیصلے لکھ سکتے تھے۔ یوں یہ قیمتی قلم ایک یادگار قلم بھی بن جاتا۔ کہتے ہیں چودھری ظہور الٰہی مرحوم نے وہ قلم قیمتاً خرید لیا تھا جس سے جج نے سابق وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی کی سزا کا لکھا تھا۔ اب اگر یہ قلم بھی آنے والے وقت میں بہت سے ایسے فیصلے لکھ سکتا ہے کہ بہت سے لوگ یہ قلم منہ مانگی قیمت دے کر خرید سکتے ہیں تاکہ یادگار رہے۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ توشہ خانے سے کوئی قلم کا شوقین آئے اور اپنے پاس رکھ لے اور بعد میں اس پر بھی شور ہو کہ یہ کیا ہو گیا۔بہرحال یہ ایک اچھی روایت ہے کہ اب توشہ خانہ کو بھی ایک محفوظ مقام کا رتبہ ملنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ جس کا دل چاہے وہ اسے لنڈابازار سمجھ کر دوسروں کی اترن اونے پونے داموں خرید کر اپنے ہاتھ یا ڈرائنگ روم کی زینت بنا لے اور لوگوں پر رعب ڈالتا پھرے اور بعد میں عدالتوں میں پیشیاں بھگتا نظر آئے۔ ایسا ہی آج کل ہو رہا ہے اور لگتا نہیں لوگ عبرت پکڑیں کیونکہ ہمارے ہاں ایسا کوئی رواج نہیں۔
خیبر پی کے میں کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔ ترجمان صوبائی حکومت۔
گرچہ یہ بیان قدرے تاخیر سے آیا مگر اس سے کم از کم یہ حقیقت تو سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا پر جو لوگ منفی پراپیگنڈا کر رہے تھے، پرانی ویڈیوز کو نیا رنگ دے کر چلا رہے تھے وہ سب جھوٹ تھا۔ خیبر پی کے میں کہیں بھی کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔ ہلاک ہونے والوں اور زخمی ہونے والوں کی ویڈیوز، تصاویر اور اس پر بیانات سے جھوٹ تھا۔ سب جانتے ہیں کہ اس وقت کون سی جماعت کے لوگ میڈیا پر طوفان برپا کرتے رہتے ہیں۔ چلو اس پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کی سیاسی مجبوری ہے۔ اس طرح ان کی روٹی روزی چلتی ہے۔ ان کی کوشش رہتی ہے کہ وہ عوام کو مشتعل رکھیں۔ یہ لوگ دانستہ یا نادانستہ ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں۔ بات یہاں تک ہی رہتی تو چلو مان لیتے کہ سیاسی مخالفت میں یہ کچھ ہو رہا ہے۔ مگر اب گزشتہ روز پشاور میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام غزہ مارچ میں اس وقت بہت حیرت کی بات امیر جماعت نے کی۔ اب اس ذومعنی جملے کا مطلب کیا ہے وہی جانتے ہیں۔ لوگ جو سمجھیں وہ ان کی مرضی۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں لوگوں کو مارا جا رہا ہے۔ بات غزہ اور کشمیر کی ہو تو وہاں کے لوگوں کو مارنے والوں کی مذمت ضرری ہے مگر موصوف نے یہ نہیں بتایا قبائلی علاقوں میں کن کو مارا جا رہا ہے۔ وہاں سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ ایک بڑی جماعت کے رہنما کی طرف سے ایسی بات خلجان پیدا کر سکتی ہے۔ کل کو کیا معلوم وہ کیا کہیں اس لیے احتیاط لازم ہے کہ اب تو خود خیبر پی کے کی حکومت نے تردید کر دی ہے کہ کہیں کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔توبحث بند ہونی چاہیے۔