ہم اور ہمارا معاشرہ
ہر معاشرے کے اندر بہت سارے افکار و نظریات ہوتے ہیں۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ خالصتاً ایک اسلامی معاشرہ ہے جس میں مختلف نظریات کے حامل لوگ موجود ہیں۔ جہاں لفظ ”معاشرہ“ آئے گا وہاں آپ کو ایک دوسرے سے مختلف سوچ اور نظریات رکھنے والے لوگ ملیں گے۔ کسی بھی معاشرے میں بہت ساری کمزوریوں کے ساتھ اگر محدود اور تنگ نظر سوچ ہو تو میں اسے ا±س معاشرے کا المیہ کہوں گا۔ مجھے فکر ہے تو اس بات کی کہ اس معاشرتی ب±رائی میں روز بروز اصافہ ہو رہا ہے۔ تنقید پر اپنی اصلاح کی ضرورت اور فکر قریباً ختم ہو چکی ہے۔ تعمیری افکار کو اپنانا اور وسعت دینا ہم نے بند کر دیا ہے۔معاشرے کی اس زبوں حالی پرکافی دنوں سے کچھ لکھنے کا ارادہ تھا۔ تاہم آج یہ موقع ملا اور اس موضوع کا انتخاب کیا تاکہ معاشرے کے ہر اجمالی زاویے پر سیر حاصل بحث ہو سکے۔ گفت و شنید اور اظہارِ رائے کے مزید در کھل سکیں۔
مختلف محققین اور دانشوروں نے معاشرے کی تعریف کچھ یوں کی ہے ”معاشرے کو عربی میں ”مجتمع“ اور فارسی میں ”جامعہ“ کہتے ہیں جو لغوی طور پر اسم فاعل ہے۔ لفظ مجتمع اور جامعہ کے اصل حروف ج، م، ع ہیں۔ جمع کے لغوی معنی جمع کرنا ، اکٹھا کرنا، مہیا و فراہم کرنا اور اشیاءکا ایک دوسرے میں ضم ہونا اور ملنا کے ہیں۔
معاشرہ انسانوں سے تشکیل پانے والے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جہاں لوگ باہمی طور پر یکساں زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے اور زندگی کے مختلف امور کی انجام دہی میں ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ عقائد و نظریات اور مشترک آداب و عادات کے مالک ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ”خدا کسی قوم کی حالت ا±س وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو تبدیل نہ کرے۔“ انسان سے گھر بنتا ہے اور گھر سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ انسان کا کردار ا±س کی فکر سے جڑا ہوتا ہے۔ جیسی فکر ہو گی ویسا ہی کردار ہو گا۔ انسان کی فکر و کردار سے ہی معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو پیدائشی طور پر وہ شریف ہوتا ہے نہ کوئی خطا کار۔ ا±س کے اچھا یا ب±را بننے میں صرف معاشرے کا کردار ہوتا ہے۔ بچہ اگر ایسے معاشرے میں پیدا ہوتا ہے جہاں افراد زیادہ پڑھے لکھے، زیادہ باشعور اور باادب و با اخلاق ہیں توفطری طور پر بچے پر بھی اسکے اثرات ہوں گے۔ وہ اچھا سیکھے گا۔ اچھا انسان بنے گا۔ لیکن اسکے برعکس ا±سکی پیدائش اگر ایسی جگہ ہو جہاں کے لوگ بے شعور، اَن پڑھ اور بداخلاق ہوں تو اس کا منفی اثر یقینا اس بچے پر بھی پڑےگا۔کوئی معاشرہ اگر مختلف قسم کی برائیوں کا شکار ہے۔ تو اجتمای طور پر وہ برائیاں ہر شخص میں سرایت کر رہی ہوتی ہیں۔ جس سے معاشرے کا سکون تباہ ہوتا ہے۔ اس طرح ہم ہر گزرتے لمحے میں ایک مہذب قوم کی اپنی حیثیت کھو رہے ہوتے ہیں۔
اپنے اندر موجود خامیوں کو تنقیدی نظر سے دیکھنا کسی بھی معاشرے کی خوبصورتی کی دلیل ہے۔ مگر ہمارے ہاں تنقید کرنے والے جو راستہ اختیار کرتے ہیں وہ کسی طرح بھی احسن اور درست نہیں ہوتا۔ ہمارا کوئی سا بھی سماجی مرتبہ ہو یا ہم کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔ دوسرو ں پر تنقید کرتے وقت ہمیشہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں جو کسی طرح بھی مناسب اور کسی مہذب معاشرے کے شایانِ شان نہیں۔
اگر آپ کسی کے کسی ب±رے فعل کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو ا±س میں موجود نقائص کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اپنی اصلاح کریں، دیکھیں کہ آپ نے خود پر بھی وہ کچھ لاگو کیا ہوا ہے جس کی بابت دوسرے پر تنقید کر رہے ہیں۔ ہم اکثر دوسروں کو ب±را بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ نہیں سوچتے کہ اس حوالے سے ہمارا اپنا کردار کیا ہے؟ یہ ایسا رویہ ہے جس کے باعث لوگ ہماری اچھی باتیں بھی سننا گوارہ نہیں کرتے۔ اس طرح اصلاح کی ہماری اچھی کوششیں بھی دم توڑ جاتی ہیں۔ کسی کی اصلاح کے لیے درست رویے اور درست راستے کا انتخاب انتہائی ضروری ہے۔
معاشرے کی اصلاح کی خواہش اور تمنا رکھنے والے کو اکثر دوسروں کی دشمنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اصلاح والی باتیں اکثر دشمنی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ تنقید ہمیشہ مثبت کرنی چاہیے۔ تنقید سے ایساتاثر نہیں ابھرنا چاہیے کہ کسی کو ذلیل و رسوا کرنے کا ارادہ ہے یا نیچا دکھانے کی کوشش ہے۔ آپ اپنی شخصیت کو اپنے کردار اور گفتار سے ایسا بنائیں کہ لوگ آپ کی تنقید پر غصے کا اظہار نہ کریں بلکہ ا±س سے کچھ سیکھیں۔ تنقید برائے تنقید کبھی نہیں ہونی چاہیے۔ اچھی تنقید سے ہمیشہ بہتر نتائج کی توقع رکھنی چاہیے۔
ہم اپنی تاریخ کا مشاہدہ کریں تو ہمیں کئی ایسے کردار ملیں گے جو ہماری تاریخ کا روشن باب ہیں۔ ہماری قومی زندگی سرسید کے بغیر نامکمل ہے۔ وہ پاکستان کی تحریک آزادی کے جدِ امجد ہیں۔ سرسید مسلمانان برصغیر کو جدید تعلیم کی طرف متوجہ نہ کرتے اور اس مقصد کے لیے تحریک نہ چلاتے تو کبھی ”علی گڑھ“ وجود میں نہ آتا۔ برصغیر کے طول و عرض میں مسلمان نوجوانوں کے لیے بے شمار تعلیمی ادارے بھی پھر قائم نہ ہوتے۔ سرسید کی اس ”تعلیم حاصل کرو“ تحریک نے برصغیر کے مسلمانوں کے مزاج میں جو انقلاب برپا کیا ا±س نے مسلمان نوجوانوں کی تقدیر بدل دی۔ یعنی معاشروں میں کوئی بھی مثبت تحریک انقلاب برپا کر سکتی ہے۔ وہ انقلاب تعلیمی ہو، معاشی یا پھر سیاسی و سماجی۔
افراد کا اجتماعی ڈھانچہ ہی معاشرہ کہلاتا ہے جس کی درستی اور ا±سے پ±رسکون و خوشگوار بنانے کے لیے کچھ کلیدی صفات کا ہونا ضروری ہے۔ خصوصاً نوجوان نسل کا ان سے متعارف ہونا انتہائی ضروری ہے۔ معاشرے میں اگر ان صفات کا خیال نہ رکھا جائے تو اجتماعی زندگی پریشانی، الجھن اور مصیبتوں کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ پھر معاشرے کا وہی حشر ہوتا ہے جس سے آج مغرب دوچار ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی مغرب کی ساری برائیاں آہستہ آہستہ جگہ بنا رہی ہیں۔
گھریلو ماحول کو بہتر اور پرسکون بنانے کے لیے نوجوانوں کی کچھ ذمہ داریاں اور ا±ن کے کچھ حقوق بھی ہیں۔ خاندان کے دائرے سے باہر اپنے گردوپیش میں ایک نوجوان معاشرے کے اہم فرد کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ایک صحت مند اسلامی معاشرے کے تشکیلی عناصر کا جزو لاینفک ہے۔ معاشرے کی اصلاح اور ایک خوشگوار معاشرے کی تشکیل کے لیے نوجوان کی ذمہ داری سب سے اہم ہے۔ اس کے اسلامی کردار، گفتار، اخلاق اور اعمال حسنہ کے بغیر معاشرے کی اصلاح اور ا±س کا وجود ناکام اورنا تمام ہے۔
ایک اچھا اور مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لیے چاہیے کہ ہم دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیں۔ معاشرے کے اجتماعی نظام کے استحکام اور بقائ کے لیے معاشرتی تعلیم کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا معاشرتی تعلیم کا بنیادی جزو ہے۔ اسے اپنائے بغیر ہم کسی مثالی معاشرے کا تصور نہیں کر سکتے۔ جو لوگ غربت و اخلاص میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ درحقیقت وہ ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کی سعی کر رہے ہوتے ہیں۔ ایثار و ہمدردی جس معاشرے کے لوگوں کی میراث ہو جائے وہ معاشرے کبھی بدحالی اور مسائل و مشکلات کا شکار نہیں ہوتے۔
اسلام کی پاکیزہ تعلیمات میں سب سے زیادہ زور نوجوان نسل کے اچھے اخلاق و کردار پر دیا گیا ہے۔ ایک بار صحابہ کرامؓنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ”اے اللہ کے رسول! انسان کو جو کچھ عطا ہوا ، ا±س میں سب سے بہتر کیا ہے؟ “ تو آپ نے جواب میں فرمایا ”اچھے اخلاق“۔
پس دین و دنیا سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ایک اچھا اور مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لیے ہر سطح پر ہمیں اچھے کردار و اخلاق کی ضرورت ہے۔ ایسا ہو جائے تو ہم ایک مثالی معاشرے کے داعی بن سکتے ہیں۔