کارگل کا شاہنامہ!
آج تیس ، چالیس برس کے نوجوان سینہ اکڑائے ،ملک بھر میں 200فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں ، فضائیہ کے اڈوں پر یلغار کرتے ہیں، شہدا و غازیوں کی یادگاروں کو روندتے ہیں، انہیں کچھ پتہ نہیں کہ کارگل کس بلا کا نام ہے۔ انہوں نے شاید ہی کارگل کا نام سنا ہو، نہ انکے لیڈر کی زبان پر یہ لفظ کبھی آیا ، کارگل کی جنگ مئی 1999ءسے شروع ہوکر جولائی تک جاری رہی ، پھر امریکی مداخلت پر بند ہوئی۔ اس بلند ترین محاذِجنگ نے نشان ِ حیدر کرنل شیرخان اور نشان حیدر لالک جان جیسے جانثاروں کا نام دنیا میں روشن کیا ، کارگل پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مجاہدین کشمیر نے جارحیت کیوں کی؟ مگر مجھے کوئی اس سوال کا جواب ضرور دے کہ بھارت نے 1984ءمیں چوروں کی طرح پیش قدمی کرتے ہوئے سیاچن کی بلند ترین چوٹیوں پر قائم پاکستانی فوجی پوسٹوں کو قبضہ میں کیوں لیا؟۔ کارگل کی جنگ نے برصغیر میں ایٹمی جنگ کے خطرے کی گھنٹیاں بجادی تھیں۔
ذرا سوچئے کہ وہ کیسے ملکوتی روشن چہرے ہونگے جو ہزاروں فٹ بلند برفانی چوٹیوں پر ڈٹ گئے۔
بھارت نے پیدل فوج، توپ خانے اور فضائیہ کے ذریعے ان منجمد چوٹیوں کو ہلاکر رکھ دیا، پگھلا کررکھ دیا لیکن گوشت پوست کے باجبروت انسان آہنی عزم کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ ان کے نام سے کوئی آگاہ نہیں، لیکن وہ سب کے سب جہاد کے نشے سے سرشار تھے ، دشمن ان پر موت برسا رہا تھا لیکن موت ان مجاہدوں کے نورانی پیکر کو چھونے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔
مرتا وہ ہے جو موت سے ڈرتا ہو، دور بھاگتا ہو ، مجاہد تو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورتا ہے، گرجتا ہے، موت ان کے الوہی، اٹل جذبوں کی تاب کیسے لا سکتی ہے۔ در اس سے کارگل تک، بٹالک سے ترتوک تک جہاں خاموشی بھی منجمد ہو جاتی ہے، جہاد اسلامی کے یہ عظیم ہیرو شجاعت اور قربانی کی نئی داستانیں رقم کر رہے تھے، ان کے پاک جسموں سے بہنے والا خون سالہا سال سے جمی ہوئی برف کو گرما رہا تھا اور یہ تپش ہمیں اپنے دل کے قریب محسوس ہو رہی تھی۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ مجاہدین کا یہ لشکر دنیا میں یکہ و تنہا رہ گیا،جی 8، امریکہ، برطانیہ، ہزار بار ان کو کوستے رہیں لیکن جب تک ہم ایک قوم بن کر ان کے پیچھے کھڑے رہے اور آسمانوں سے فرشتے قطاراندر قطار اتر کر ان کی مدد کو آ تے رہے، اس وقت تک یہ یکہ و تنہا کیسے ہو سکتے تھے۔
یہ مجاہدین اپنے کسی ذاتی مفاد کی خاطر ان بلندیوں پر مورچہ زن نہیں ہوئے۔ انہیں سری نگر فتح کرکے پلاٹوں کی الاٹمنٹ سے غرض نہیں تھی ، نہ ان کے باپ کو کسی نے مارا تھا کہ وہ ذاتی انتقام پر اتر آئیں لیکن بھارت کی 9 لاکھ سے زائد غاصب فوج نے جس بہیمانہ طریقے سے ستر ہزار کشمیری مسلمانوں کا خون کیا ہے، عفت مآب کشمیری خواتین کی آبروریزی کی ہے، گھروں اور کھیتوں کو جلایا ہے اور آزادی کی تحریک کو راکھ کرنے کی کوشش کی ،اس کے بعد رتی بھر اسلامی حمیت و غیرت کا مالک کوئی پاکستانی بھی ہمسائے کے طور پر چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔
کارگل کے مٹھی بھر مجاہدین جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک فیصلہ کن عزم کے ساتھ بھارتی فوج سے ٹکرا گئے۔ دشمن ہر روز دعوے کرتا رہا کہ وہ ان چوٹیوں کو خالی کرانے میں کامیاب ہو گیا ، لیکن ہر آنے والا دن بھارتی فوج کے شرمناک نقصانات کو الم نشرح کررہا تھا۔
1971ءکی سترہ روزہ جنگ میں بھارتی فوج کے صرف 83 فوجی مرے تھے اور 185 زخمی ہوئے تھے۔ لیکن کارگل دراس سیکٹر میں ایک ماہ کی لڑائی نے بھارت کے اعداد و شمار کے مطابق 207 لاشوں کا تحفہ دیا اور 389 فوجی زخموں سے چور ہوئے۔لداخ کا شہر لیہہ ”تابوت ساز شہر“ کے نام سے مشہور ہو گیا۔ بھارتی فوجیوں کےلئے تابوت تیار کرنے کےلئے اس شہر میں لکڑی ختم ہو گئی اور بو فورس توپوں کے گولوں کے ڈبوں کی ”پھٹیوں“ سے تابوت تیار کرنے کی نوبت آ گئی۔
کشمیر کی کنٹرول لائن پر دراس، کارگل اور حاجی پیر کے علاقوں کا تذکرہ گزشتہ جنگوں میں دور افتادہ، غیر اہم علاقوں کی حیثیت سے ہوتا رہا ہے۔65ءمیں یہ علاقے بھارت کے قبضے میں چلے گئے، معاہدہ تاشقند ہوا تو دونوں ملکوں کی افواج بین الاقوامی سرحد اور سیز فائر لائن تک واپس جانے کی پابند قرار دی گئیں۔ سو یہ علاقے دوبارہ پاکستان کی تحویل میں آ گئے۔71ءمیں شملہ معاہدہ کے نتیجے میں سیز فائر لائن کا تقدس ختم کر دیا گیااور کشمیر میں جو جہاں بیٹھا تھا،اسے کنٹرول لائن کا نام دےدیا گیا، اس طرح کارگل کا علاقہ بھارت نے ہتھیا لیا، لیکن اس علاقے کی بلندی کسی بھی فوج کی دفاعی صلاحیت کو مفلوج کر دیتی ہے۔
دراس شہر دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہے، نیشنل ہائی وے الفاون One Alpha پر واقع یہ شہر ایک قصبہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور سری نگر سے لداخ کے شہر لیہہ جانے والے چائے اور سگریٹ کےلئے یہاں دم بھر کو رکتے ہیں، اس شہر اور گردو نواح کی کل آبادی دس ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو سردیوں میں منفی 60 سنٹی گریڈ کے درجہ حرارت میں گھروں میں دبک جانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اس شہر کے بیچوں بیچ گزرنے والی نیشنل ہائی وے الفاون سیاچن میں بھارتی فوج کی سپلائی لائن کے کام آتی ہے۔
1984ءکے موسم بہار کے اوائل میں بھارت نے کنٹرول لائن کی پہلی بڑی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاچن گلیشیئر پر قبضہ جما لیا، اس وقت سے اب تک دنیا کے اس بلند ترین میدان جنگ میں بھارت نے پاکستان کو الجھا رکھا ہے۔یہ علاقہ بیس ہزار سے 26 ہزار فٹ بلند ہے۔ اگرچہ یہ جنگ بھارت کےلئے بھی مہنگی ثابت ہو رہی ہے، لیکن پاکستان جیسا چھوٹا ملک اس جنگ کا معاشی دباﺅ برداشت کرنے کے قابل نہیں، مجاہدین نے برسوں کی تیاری کے بعد کارگل میں سیاچن کی شہ رگ پر ہاتھ رکھا تو بھارت تلملا اٹھا۔
کوئی انداز ہ نہیں کہ مجاہدین، کارگل کی ان برف پوش چوٹیوں پر کب چڑھے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ جنوری میں یہ کام کیا گیا، بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اپریل کے اوائل میں مجاہدین نے یہ کارروائی کی، تاہم 12 اپریل کو بھارتی وزیر دفاع فرنینڈیس نے سیاچن کا دورہ کیا، تو اس وقت تک بھارت کے پاس کوئی ایسی اطلاع نہ تھی۔ سمبا، اکھنور، پونچھ، کپواڑہ کے روایتی سیکٹروں سے لے کر دراس کارگل، بٹالک، چھوربٹلا، ترتوک اور سیاچن تک جگہ جگہ محاذ کھل گئے ، بھارتی رپورٹس کے مطابق آٹھ نو سو مجاہدین سے نبرد آزما ہونے کےلئے پچاس ہزار سے زائد بھارتی فوج بوفورس توپوں، ملٹی بیرل گنوں، مارٹر توپوں، فیلڈ گنوں، ہیلی کاپٹروں، مگ اور میراج طیاروں سے لیس تھی۔
بھارت نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے تو لولنگ کی چوکی پر قبضہ کر لیا ، لڑائی کے پہلے چھ گھنٹوں میں بھارت نے 70 ہزار گولے برسائے،بھارت کو 130 ایم ایم توپ کا ایک گولہ بارہ ہزار روپے میں پڑتا تھا اور بوفورس کا ایک گولہ 15 ہزار روپے سے 51 ہزار روپے میں پڑتا تھا۔ بھارت کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس کارگل سیکٹر میں سات ماہ کے گولہ بارود کا ذخیرہ تھا۔ مغربی بنگال کی اسلحہ ساز فیکٹری کی پیداوار میں 500 گنا اضافہ کر دیا گیا۔
بھارت پر ایک جنگی جنون طاری تھا۔ہر روز نئی دھمکیاں سننے کو ملتیں ، گوشت پوست کے چند سو نفوس قدسیہ کارگل کی بلندیوں پر مورچہ زن تھے۔ ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں، ان کے عزائم ان چوٹیوں سے بھی بلند تر اور مضبوط تر تھے، وہ آگ اور بارود کے طوفانوں میں ڈٹے رہے۔
لوگو! ان غازیوں، ان مجاہدوں، ان امر شہیدوں کو بھول نہ جانا جنہوں نے اپنا آج آپ کے کل کےلئے قربان کیا، وہ ہماری ماﺅں، بہنوں کی عزتوں کی رکھوالی کےلئے شہید ہو ئے ، دنیا میں آج تک ایسے بلند ترین مقام پر کوئی جنگ نہیں لڑی گئی، بیسویں صدی کے اختتامی لمحات میں غازیانِ اسلام قراقرم کی سربفلک برف پوش چوٹیوں پر عزیمت و استقامت اور جرات و شجاعت کی نئی داستان رقم کر رہے تھے۔
سلام ہو ان غازیوں پر! سلام ہو ان امر شہیدوں پر!
ان کے زندہ اور تابدار جذبوں کو بوفورس کے گولے،، مگ طیاروں کے دو ہزار پونڈ کے بم، غوری اور پرتھوی میزائل یا ایٹم بم بھی نہیں کچل سکے، ہندو اگر حبیب پاک کی امت کو ایک ہزار سال میں نہیں کچل سکا تو آنے والے ہزار سال میں بھی اسے خفت کا سامنا ہی کرنا پڑے گا۔