تصور عبادت (۱)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں ‘‘(سورۃ الذاریات)۔ یعنی کہ انسانی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی بندگی و عبادت کو بجا لانا ہے۔ انسان کو عبادت کے مفہوم کو سمجھنا چاہیے۔ اس کے ذہن میں اسلام کے تصور عبادت کا نقشہ موجود ہونا چاہیے۔
’’لغت میں عبادت کے معنی اس اطاعت کے ہیں جس میں خضو ع پایا جاتا ہو ‘‘(لسان العرب )۔ اما نوی فرماتے ہیں :’’ عبادت خضوع سے اطاعت کرنے کو کہتے ہیں ‘‘(شرح مسلم )۔
قرآن مجید فرقان حمید میں عبادت کا متضاد تکبر استعمال کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ سب جہنم میں داخل ہوں گے ‘‘( سورۃ لمومن)۔ سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا :’’ اور جسے اللہ کی عبادت سے عار ہو اور وہ تکبر کرے تو اللہ ان سب کو جلد ہی اپنے ہاں جمع کرے گا ‘‘۔ عبادت کا مفہوم خضوع ہے لیکن جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس میں محبت اور الفت کا عنصر بھی شامل ہونا چاہیے۔
عبادت الٰہی اس عاجزی اور خضوع کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی محبت و الفت میں ڈوب کر کی جائے۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : عبادت کے لغوی معنی پست ہونے کے ہیں اس لیے کہا جاتا ہے معبد راستہ اور معبد اونٹ اورشریعت میں اس سے مراد ایسی کیفیت ہے جس میں انتہائی محبت کے ساتھ بہت زیادہ خضوع اور خوف ہو‘‘(ابن کثیر)
اسلام میں عبادت کا تصور اپنے آپ کو ہر لمحہ اور ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کے سپر د کرنا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ چند مخصوص اوقات میں انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے اور باقی سب اوقات اپنے نفس اور خواہشات کی بندگی میں لگا رہے۔ یہ بالکل بھی عبادت کا اسلامی مفہوم نہیں ہے۔
اسلام میں عبادت کا تصور یہ ہے کہ زندگی کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی بندگی کی جائے اور اسکی محبت میں ڈوب کر جو بھی کام ہو احکام الٰہی کے مطابق کیا جائے۔ اسلام دنیا کو چھوڑ دینے کو عبادت نہیں کہتا بلکہ دنیا کے کاموں میں مشغول ہو کر تمام معاملات کو احکام الٰہی کے مطابق سر انجام دے اور کوئی بھی قدم ان احکام کے خلاف نہ اٹھے تو اسے حقیقی عبادت کہا جائے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :جنتی دوزخیوں سے سوال کریں گے ’’تمہیں کون سی چیز دوزخ میں لے گئی۔ وہ کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اورمسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ ‘‘۔ (سورۃ المدثر)۔